نیب لاہور کی جانب سے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کو 8 اکتوبر کے لئے نوٹس بھیج دیا گیا۔ دبئی کی نجی کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر کو ساتھ لے کر پیش ہونے کی ہدایت کردی، کمپنی کے نمائندے سے خواجہ آصف کی نوکری کاریکارڈ بھی مانگ لیا۔
نیب لاہور کی جانب سے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کونوٹس بھجوایا گیا ہے جس میں نیب نے خواجہ آصف کو آٹھ اکتوبر کو دبئی کی نجی کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر کو ساتھ لے کر پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔
نیب لاہور کی جانب سے جاری نوٹس میں کمپنی نمائندے کو ہدایت کی گئی ہے کہ خواجہ آصف کی نوکری کا تمام ریکارڈ لے کر پیش ہوں۔
نوٹس میں خواجہ آصف سے کہا گیا ہے کہ آپ نے دعویٰ کیا تھا کہ آپ یو اے ای میں 2004 سے 2018 تک ایک الیکٹرک کمپنی کے کنسلٹنٹ رہے۔ آپ نے اقامہ کی کاپی بھی اپنے پاس ہونے اور کمپنی سے تقریباً 13 کروڑ بطور انکم وصول کرنے کا بھی دعویٰ کیا۔
آپ نے ایک خط کی کاپی بھی نجی کمپنی کی طرف سے جمع کرائی، خط میں نجی کمپنی کے نمائندے کی متعلقہ فورم پر پیش ہونے کی آمادگی ظاہر کی گئی۔
خواجہ آصف کو ہدایت کی گئی ہے کہ آٹھ اکتوبر کو کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر کو ساتھ لے کر پیش ہوں۔
یاد رہے کہ خواجہ آصف کے متحدہ عرب امارات کے اقامے کا انکشاف گذشتہ دورِ حکومت میں ہوا تھا جب وہ وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز تھے۔ سیالکوٹ میں ان کے حلقے میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے مخالف امیدوار عثمان ڈار نے بھی اس حوالے سے عدالت اور الیکشن کمیشن میں درخواست دی تھی لیکن ان تمام معاملات کے باوجود خواجہ آصف کو انتخابات لڑنے کی بھی اجازت دی گئی اور گذشتہ دو سال کے دوران ان کو کسی موقع پر اس حوالے سے کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
تاہم، 20 ستمبر کو ہونے والی اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس میں جب سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر کڑی تنقید کی گئی ہے، خصوصاً سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے، اپوزیشن جماعتوں کے خلاف کارروائیاں تیز تر ہو گئی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تند و تیز تقاریر نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے کی گئی تھیں، لہٰذا کرپشن مقدمات کی زد میں بھی سب سے تیزی سے مسلم لیگی رہنما ہی آ رہے ہیں۔ شہباز شریف کا جیل جانا، خواجہ آصف کا اقامہ ایک بار پھر سے منظرِ عام پر آنا، شاہد خاقان عباسی کو نیب کی جانب سے بلائے جانا اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ خود مریم نواز کو بھی گرفتار کیے جانے کی خبریں بدھ کی رات گرم تھیں۔ مریم نواز نے خود بھی اعلان کیا ہے کہ اگر ان کو گرفتار کیا گیا تو وہ گرفتاری دینے کے لئے تیار ہوں گی لیکن اس سے نقصان حکومت کو ہی ہوگا۔
دوسری طرف نواز شریف کی تقاریر کو ٹی وی چینلز کی جانب سے نشر کیے جانے پر بھی مختلف صحافیوں اور مبصرین کی جانب سے حیرت کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ لیکن اب پیمرا کی جانب سے تمام ٹی وی چینلز کو حکم جاری کر دیا گیا ہے کہ وہ نواز شریف کی تقاریر نہیں چلا سکتے۔ اس حوالے سے پیمرا کو اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی جانب سے ایک درخواست موصول ہوئی تھی جس میں شکایت کی گئی تھی کہ اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے یہ اصول طے کر دیا گیا ہے کہ سزا یافتہ مجرموں کی تقاریر ٹی وی پر نہیں چلائی جا سکتیں۔ پیمرا نے بھی اس سلسلے میں 27 مئی 2019 کو یہ فیصلہ صادر فرما دیا تھا کہ ٹی وی چینلز یہ ان کی تقاریر نہ چلائیں مگر میڈیا چینلز کی جانب سے حالیہ دنوں میں اس حکمنامے کی خلاف ورزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ پیمرا نے کہا ہے کہ مستقبل میں کوئی ٹی وی چینل یہ تقاریر نشر نہیں کرے گا۔
یہ سب کچھ ایک ایسے ماحول میں ہو رہا ہے جہاں قریب دو سال سے خاموش نواز شریف ایک مرتبہ پھر سیاست میں سرگرم ہوئے ہیں اور مریم نواز بھی کئی مہینوں کی خاموشی کے بعد بالآخر پریس کانفرنسز اور تقاریر سے خطاب کرنے لگی ہیں۔ نواز شریف کی تقاریر میں عمران خان حکومت کی معاشی اور انتظامی کارکردگی پر تو تنقید کی جاتی رہی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ سخت تنقید فوج کے اعلیٰ عہدیداروں بشمول آئی ایس آئی سربراہ جنرل فیض حمید اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر کی گئی ہے۔ جنرل فیض حمید پر لگائے گئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت صدیقی کے بیانات کو انہوں نے بار بار اٹھایا ہے۔ جنرل باجوہ پر جمعیت علمائے اسلام کے رہنما عبدالغفور حیدری کے الزامات پر بھی انہوں نے سخت مؤقف اپنایا ہے جس کے مطابق جنرل باجوہ نے مولانا فضل الرحمٰن کو کہا تھا کہ آپ لانگ مارچ نہ کریں، ہم نواز شریف کے خلاف جو کر رہے ہیں، اس میں مداخلت نہ کریں۔
نواز شریف کی جانب سے اس تنقید کے بعد ریاستی مشینری حرکت میں آنا شروع ہو چکی ہے۔ پیمرا کا حکمنامہ، مسلم لیگی لیڈران کے خلاف مقدمات اور مریم نواز کی ممکنہ گرفتاری گھمسان کا رن پڑنے کی طرف ہی اشارہ کر رہی ہے۔ آنے والے دن مسلم لیگ نواز کے لئے مشکلات لا سکتے ہیں۔ تاہم، اگر اپوزیشن جماعتیں اکٹھی رہیں تو یہ حکومتی دباؤ کا مقابلہ کر سکیں گی۔ لیکن جس طرح خواجہ آصف کی جانب سے آصف علی زرداری پر اعتبار نہ ہونے کا اعلان برملا کیا گیا ہے، لگتا نہیں کہ یہ اپوزیشن جماعتیں اکٹھی رہ سکیں گی۔