نامور ٹی وی میزبان اور کالم نگار آفتاب اقبال کے ایک ٹی وی چینل پر چلے انٹرویو پر بحث ومباحثہ چل رہا ہے جس میں انہوں نے پنجابی فلموں کے نامور اداکار سلطان راہی مرحوم اور ادکار شان کا موازنہ کرتے ہوئے شان کو سلطان راہی مرحوم سے بہتر درجے بہتر ادکار قرار دیا ہے۔ اس پر سلطان راہی مرحوم کے پرستار اور انکے بیٹے ادکار حیدر سلطان بہت برہم ہوئے ہیں اور آفتاب اقبال کے خلاف ایک محاذ کھول دیا ہے۔
ہمارا ایک سماجی المیہ ہے کہ ہم اندھی نفرت اور اندھی محبت میں مبتلا قوم ہیں، کسی بھی کی گئی بات کو تحمل مزاجی سے سن کر اور بات پر دلیل اور منطق سے گفتگو کرنا ہمارا وطیرہ نہیں ہے۔ ہم تو وہ قوم ہیں جس کو کہا جائے کہ کتا آپ کا کان کاٹ کر لے گیا ہے تو ہم اپنا کان نہیں دیکھیں گہ بلکہ کتے کے پچھے دوڑ لگا دیں گے۔
آفتاب اقبال نے جو باتیں کی ہیں ان کو تحمل مزاجی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان پر سیخ پا ہونے کی بجائے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس بات میں کس قدر سچائی ہے۔ ادکار شان اور سلطان راہی مرحوم دو مختلف ادوار کے ادکار تھے جب شان کا سورج طلوع ہو رہا تھا تو سلطان راہی کا غروب ہو رہا تھا۔ 80 کی دہائی میں وطن میں اردو فلموں کا زوال شروع ہو چکا تھا جبکہ اردو فلموں کی بہت بڑی مارکیٹ کراچی کے حالات بہت خراب تھے۔ ملک میں فوجی آمریت تھی اور فنون لطیفہ کی حوصلہ شکنی جاری تھی۔ لکھنے پڑھنے سوچنے سمجھنے والے لوگ زیر عتاب تھے۔ جنرل ضیاء الحق کو فلم انڈسٹری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ بنام مذہب فنون لطیفہ کی حوصلہ شکنی کر رہا تھا۔ ان حالات میں جب دانشور فلمی دنیا سے بددل ہو گئے تو فلمی صنعت میں غیر نصابی سرگرمیاں شروع ہو گئیں۔ نگار خانوں میں وہ لوگ براجمان ہو گئے جن کا فلم سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ عیاشی کے لیے فلمیں بناتے تھے۔
قومی زبان کی فلمیں ریلیز ہونا بند ہوئیں ،جاوید فاضل، سید سلمان ،جمشید نقوی اور جان محمد نذر اسلام جیسے قابل ہدایت کار کام کی کمی کے باعث گھر بیٹھ گئے تو مسعود بٹ پرویز، رانا الطاف حسین جیسے انکی جگہ لینے آگئے۔ وحید مراد، ندیم شاہد کی جگہ سلطان راہی مرحوم نے لے لی، راقم نے پنجابی فلموں کے نامور سکرپٹ رائٹر ناصر ادیب کا انٹرویو کیا تھا جنہوں نے سلطان راہی مرحوم کے لئے سب سے کامیاب فلمیں لکھی ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں نے ایک اوسط درجے کے اداکار کو اپنی قلم کے ذریعے سٹار ایکڑ بنایا جس کی نہ شکل ہے نہ عقل۔ سپر ہٹ فلموں کی لائن لگانے والے سلطان راہی کو ایک مخصوص طبقے نے پسند کیا وہ کبھی بھی اچھے اداکار نہ بن سکے جبکہ ان کا فنی قد ندیم، شاہد اور جاوید شیخ سے چھوٹا رہا۔ وحید مراد تو تھے ہی سپر اسٹار، آج تک کوئی بھی سنجیدہ فلم ناقد کسی ایک فلم کا نام بتا دے جو سلطان راہی مرحوم کی ادکاری کے باعث یاد رکھی جائے گی۔
90 کی دہائی کے آغاز میں شان کی آمد ہوئی مگر انکی بدقسمتی ہے کہ جاوید فاضل جیسے سنجیدہ فلم میکر کے ساتھ بلندی فلم کرنے کے بعد وہ بھی مسعود بٹ پرویز، رانا الطاف حسین اور سنگیتا کے ہاتھوں میں چلے گئے اور جلد ہی فلاپ ہو گئے۔ اس دروان سید نور نے انکو گھونگھٹ اور سنگم جیسی فلموں میں کام دیا اور انکی واپسی ہوئی مگر بعد میں پھر وہ وہی کرنے لگے جو سلطان راہی مرحوم کیا کرتے تھے۔ یہ شان کی بدقسمتی ہے کہ ایک باصلاحیت اور خوش شکل ادکار ہونے کے باوجود وہ سلطان راہی کے نقال بن گئے اگر اس دوران وہ شعیب منصور کی خدا کے لیے اور بلال لاشاری کی وار نہ کرتے تو بطور ایک اچھے اداکار ان کو کبھی یاد نہ کیا جاتا۔
حرف آخر یہ ہی ہے کہ شان کو بطور ایک اچھے اداکار کے یاد رکھا جا سکتا ہے، مگر سلطان راہی مرحوم کے کھاتے میں کوئی ایسی فلم نہیں جس کی وجہ سے انکو ایک اچھے اداکار کے طور پر یاد رکھا جائے۔ ہمیں آفتاب اقبال کی بات پر جذباتی ہونے کی بجائے ان حقائق کو دیکھنا چاہیئے جس تناظر میں یہ بات کی گئی ہے مگر جو قوم اندھی محبت اور اندھی نفرت میں متبلا ہو وہ ایسے ہی ردعمل دیتی ہے۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔