(زیاد فیصل)
[gap height="20"]
(1) انڈیا میں اسلام محمد بن قاسم نے سندھ کے راستے پھیلایا
حقیقت کچھ اور ہے ۔ انڈیا میں مسلمانوں کی پہلی بستیوں اور اولین مساجد کا قیام جزیرہ نما عرب اور جنوبی انڈیا کے درمیان تجارتی تعلقات کا نتیجہ تھا۔ اور یہ پیش رفت رسول اﷲ ﷺ کی حیات مبارکہ میں، یا ان کے فوراً بعد دیکھنے میں آئی تھی ۔ مسلمان تاجر جنوبی انڈیا میں آباد ہوگئے ، اپنے خاندان قائم کیے اور مقامی آبادیوں کے ساتھ کاروباری روابط سے دوطرفہ فائدہ اٹھایا۔ اُنھوں نے مقامی غیر مسلمان حکمرانوں کے ساتھ فعال، پرامن اور مجموعی طور پر مثبت تعلقات قائم کیے ۔ محمد بن قاسم کی آمد بہت بعد میں ہوئی تھی ۔
(2) جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی تمام تاریخ کا حاصل تحریکِ پاکستان تھی
نہیں، جنوبی ایشیا کی مسلمان قومیت مختلف ، طویل اور پیچیدہ کہانیاں رکھتی ہے ۔ بیسویں صدی کی تحریکِ پاکستان مسلمانوں کو برصغیر میں ہونے والے بہت سے تجربات کی ایک تشریح تھی ۔ 1940 ء کی دہائی میں یہ تحریک بہت زور پکڑ گئی ، لیکن مسلمان ہمیشہ سے ہی ہندواکثریت سے نمٹنے کا چارا نہیں کررہے تھے ۔ مختلف ادوار میں جنوبی ایشیا کے کئی ایک علاقوں میں رہنے والے مختلف مسلمانوں کی ترجیحات مختلف رہی تھیں۔ کچھ دھڑے مختلف حکمران خاندانوں اور نسل در نسل چلنے والی بادشاہت کو قائم رکھنا چاہتے تھے ۔ کچھ اپنے مخصوص نسلی گروہوں کے حقوق کا تحفظ چاہتے تھے ۔ کچھ کا مقصد محض برطانیہ سے آزادی حاصل کرنا تھا۔ اُنہیں اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ یہ آزادی کیسے ملتی ہے یا اُن کی قیادت کون کرتا ہے ۔ نیزتمام مسلمان رہنما اور دانشور مسلم لیگ میں شامل نہیں تھے ، حتیٰ کہ 1940 ء کی دہائی میں بھی نہیں جب کہ یہ تحریک اپنے پورے زوروں پر تھی ۔ اگرہم آج پائی جانے والی مختلف آراء اورموقف کو برداشت کرنا چاہیں تو اُس دور میں پائی جانے والی مختلف آرائے اور انواع واقسام کے تجربات کے بارے میں جانکار ی ضروری ہوگی۔
[gap height="20"]
(3) جب مسلمانوں کے پاس طاقت تھی تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ انتہائی نیک اور دین دار تھے ، لیکن جب اُن کا رجحان مذہب کی طرف کم ہوگیا تو اُن کے ہاتھ سے اقتدار جاتا رہا
یہ عمومی طو ر پائی جانے والی سوچ ہے ، اور جدید سیاسی اسلام سے تعلق رکھنے والے کچھ مفکرین اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام کے ذریعے اس سوچ کی براہِ راست یا بلواسطہ طور پر ترویج کی جاتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دہلی سلطنت اور مغل دور کے مسلمانوں کی زندگی کسی مخصو ص کے محور سے بہت دور تھی ۔ بے شک اُن میں سے کچھ روایت پسند اور کٹر مذہبی تھے ، لیکن بہت سے دیگر ایسے نہیں تھے ۔ مسلمان حکمران اور اشرافیہ موسیقی، شاعری، ادب، فنون اور ثقافت کے دلدادہ تھے ۔ اور ایساخاص طور پر اُس وقت تھا جب پندرویں، سولویں اور سترویں صدیوں کے دوران مسلمان سیاسی اور عسکری اعتبار سے بہت طاقتور تھے ۔ وہ مسلمان دیگر مذاہب کے نظریات اور روحانی تصورات کے بارے میں کھلا ذہن رکھتے تھے ۔ وہ فطرتی اور انسانی خوبصورتی پر فریفتہ تھے ۔ عشقِ مجاز ی کا سوز عشقِ حقیقی کے گداز سے کسی طور کم نہ تھا ۔کوچۂ جاناں کی راحت محبوبِ حقیقی کے حصول سے کم طرب انگیز نہ تھی ۔فن طباخی کواہمیت دی جاتی، ہر قسم کے مشروبات کی قدر ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ نیکی اور پرہیزگاری اور مذہبی قدامت پسندی کی طرف واپسی کی سوچ اٹھاوریں اور انیسویں صدیوں میں مسلمانوں کے زوال پر خوفزدہ مفکرین کا مایوس کن ردعمل تھا۔ جب آپ کے ہاتھ سے طاقت اور اختیار نکلنے لگے تو آپ فکری حجرہ نشینی اختیار کرتے ہوئے خوف کے حصار میں بند ہوجاتے ہیں۔
[gap height="20"]
(4) جنوبی ایشیا کے مسلمان حکمرانوں کی برطانوی فورسز کے ہاتھوں شکست کی اصل وجہ غداری تھی
چند افراد کی انفرادی سطح پر غداری، جیسا میر جعفر کی نواب سراج الدولہ سے غداری، سے چند ایک جنگوں کے نتیجے کی وضاحت کی جاسکتی لیکن یہ کہانی کا ایک معمولی سا حصہ اور ناقص تشریح ہے ۔ انڈیا کے مسلمان حکمرانوں کی فوجی اور معاشی طاقت کا یورپ کی کمرشل مہارت، تیکنیکی جدت اور سمندروں پر کنٹرول کرنے والی طاقت سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ جب اٹھاوریں صدی کے وسط میں برطانیہ کو ہاتھ آنے والے موقع کی جھلک دکھائی دینا شروع ہوگئی تو کوئی معجزہ (یا نظریات اور سماجی ڈھانچے کی مکمل تبدیلی ) ہی مسلمان حکمرانوں کے اقتدار کو بچا سکتا تھا ۔ کچھ موقع پرست افراد کی ان حالات میں غداری خارج ازامکان نہیں کیونکہ وہ ہوا کا رخ بھانپ جاتے ہیں۔
[gap height="20"]
(5) حصولِ پاکستا ن کا مقصداسلامی شریعت کا نفاذ تھا
بانئ پاکستان، مسٹر محمد علی جناح کی گیارہ اگست 1947 ء کی تقریر اس موقف کی دوٹوک انداز میں نفی کرتی ہے ۔ اس تقریر کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قائد اعظم اس ضمن میں بہت واضح تھے ۔
[gap height="20"]
(6) پاکستان 1965 ء کی جنگ جیت گیا۔۔۔ یا کم از کم اس نے بہت زبردست معرکے سرانجام دیے
اس بیانیے پر یقین کرنے سے پہلے آپ کو فتح کی کوئی نئی تعریف تلاش کرنی ہوگی ۔ اُس وقت کے فوجی آمر، ایوب خان کی انتظامیہ نے یہ سوچ کر 1965 ء کی جنگ شروع کردی کہ یہ مقبوضہ کشمیر میں شورش بپا کردے گی اور پاکستان اس سے فائدہ اٹھائے گا ۔ اُنھوں نے سوچا کہ پاکستانی کمانڈوز کو مقبوضہ کشمیر میں داخل کرنے سے یہ بغاوت برپا کی جاسکتی ہے ۔ لیکن درحقیقت ایسا کچھ نہ ہوسکا۔ جب پاکستانی دستے دشمن کی صفوں کے پیچھے پہنچے تو اُنہیں پتہ چلا کہ وہاں اُن کے لیے کوئی معاونت موجود نہیں۔ اس کے بعد بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگ میں طرفین کی فوجی قیادت نے انتہائی حواس باختگی کا مظاہرہ کیا ۔ دونوں ممالک نے یکے بعد دیگرے اپنے اہم ترین آرمرڈ ڈویژنز کو غلط منصوبہ سازی سے کیے گئے حملوں میں جھونک دیا۔ پہلے پاکستان نے فرسٹ آرمرڈ ڈویژن کے ٹینکوں کو آسال اتر کی جنگ میں ضائع کردیا۔ اس کے بعد انڈیا نے اپنی فرسٹ آرمرڈ ڈویژن کے ٹینکوں کے ساتھ یہی کچھ چونڈہ کی جنگ میں کیا ۔ پاکستان نے کچھ فضائی جھڑپوں میں اچھی کارکردگی دکھائی لیکن جنگ بندی کے وقت اس کی پوزیشن ہر حوالے سے انڈیا سے بدتر تھی ۔فوجی حقائق ایک طرف، درحقیقت اس جنگ نے پاکستان کے پانچ سالہ منصوبے کے تحت ہونے والی معاشی ترقی کا شیرازہ بکھیر دیا ۔ جنگ کے بعد پاکستان کی عالمی حیثیت بدتر ہوچکی تھی ۔ اب اس کے سامنے تزویراتی طور پر اُ س سے کہیں مہیب مسائل تھے جتنے جنگ سے پہلے ۔
[gap height="20"]
(7) بنگلہ دیش کا قیام بھارت کی مداخلت کا نتیجہ تھا
اگرچہ انڈیا کے بہت زیادہ فوجی اور سیاسی کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن 1971 ء کا سانحہ بنیادی طور پر پاکستان کا اپنے ہاتھوں سے کھودا گیا گڑھا تھا ۔ اس نے ملک کے مشرقی بازو کے ساتھ ہر قسم کا افسوس ناک سلوک روا رکھنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ، حالانکہ مشرقی بازو کی آبادی بھی زیادہ تھی اورہماری برآمدات میں اُس کاحصہ مغربی پاکستان کی نسبت کہیں بڑھ کر تھا۔ دوسری طرف اُسے درآمدات کے لیے زیادہ وسائل فراہم نہ کیے جاتے ۔ درحقیقت مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے باوجود شیخ مجیب الرحمن کو وزیرِ اعظم بننے کی اجازت نہ دے کر بنگالیوں کو اپنا الگ وطن حاصل کرنے کی راہ دکھا دی تھی ۔ اُس وقت اس مسلے پر بات کرنے والوں کو ’’ریاست کا دشمن ‘‘ سمجھا جاتا۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر انڈیا مداخلت نہ کرتا تو بھی مغربی پاکستان کو جغرافیائی طور پر بہت دور، مشرقی حصے میں میں ایک ہولناک خانہ جنگی لڑنا پڑتی ۔ مکتی باہنی کے باغیوں کو مشرقی بازو میں عوامی حمایت حاصل تھی ۔ مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے کسی قسم کی لچک دکھانے سے انکار کردیا ۔ سرکاری فورسز اور باغی گروہ ہولناک جنگی جرائم کا ارتکاب کررہے تھے۔ اگر انڈیا مداخلت نہ کرتا تو بھی یہ صورتِ حال بہتر نہیں ہوسکتی تھی ۔
[gap height="20"]
(8) تمام مذہبی علما متفق ہیں کہ ۔۔۔۔(کوئی بھی تصور)
نہیں، ایسا نہیں ہے ۔ ایک بھی ایشو ایسا نہیں جس پر پاکستان میں پائے جانے والے مختلف فرقے اور مکاتب ہائے فکر متفق ہوں۔ باقی دنیائے اسلام کا بھی یہی حال ہے ۔ آپ کو دوسروں کے عقائد اور طرزِ زندگی کے ساتھ مل کررہنا سیکھنا پڑتا ہے ۔
[gap height="20"]
(9) ہم دنیا کی کسی بھی قوم سے زیادہ ٹیلنٹ رکھتے ہیں۔
ہمارے ہاں صرف درست، طاقتور اور صاحبِ بصیرت قیادت کا قحط ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم ایک معاشی طاقت بن چکے ہوتے یہ بات درست ہے کہ مواقع کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں بہت سا ٹیلنٹ ضائع ہوجاتاہے ۔ لیکن ہمارے لوگ دنیا کی دیگر اقوام سے ممتاز نہیں۔ باقی دنیا کے لوگ بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہر جگہ باصلاحیت افراد بھی ہوتے ہی اورکند ذہن بھی، اور اُن کے درمیان متوسط صلاحیتیں رکھنے والے افراد پائے جاتے ہیں۔ہم ٹیکنالوجی اور ایجاد میں بہت پیچھے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام ترقی یافتہ ممالک ایک طرف، ترقی پذیر ممالک میں بھی بہت پست سطح پر ہے ۔ جہاں تک معاشی امکانات کی بات ہے تو یہ موجود ہیں۔ لیکن جہاں امکانات پائے جاتے ہیں وہاں چیلنجز اور رکاوٹیں بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔پاکستانی معیشت کو ساخت کے اعتبار سے طویل المدت مسائل کا سامنا ہے ،اور ان کاحل آسان کام نہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ قیادت کس کے پاس ہے ۔ ہمارے سیاسی عدم استحکام اور خطے کے تزویراتی چیلنجز کی وجہ سے یہ مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ہم مزید فعال قیادت لے آئیں تو بھی یہ مسائل راتوں رات غائب نہیں ہوجائیں گے۔ ان کے حل کے لیے صبر، حقیقت پسندی اور وقت درکار ہیں۔ ہم کبھی بھی ایشیا کا ٹائیگر نہیں بن پائیں گے ، لیکن ہم موجودہ حالات کو بہتر کرنے کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔
[gap height="20"]
(10) دنیا ہم سے حسد کرتی ہے اور ہماری ترقی کا راستہ روکنا چاہتی ہے
دنیا کے زیادہ تر ممالک اور اُن کے ہمسایوں کے درمیان تزویراتی مسابقت پائی جاتی ہے ، لیکن پاکستان میں ایسا کوئی منفر د یا ناقابلِ یقین کارنامہ سرانجام نہیں دیا جارہا جس کی وجہ سے دنیا کی عظیم ترین طاقتیں مل کر ہمارے خلاف ہوجائیں۔ اُن کے پاس غور وفکر کرنے کے لیے اپنے مسائل ہیں۔ پاکستان اُن کے لیے کوئی خصوصی حیثیت نہیں رکھتا ۔ یقیناًدنیا ہمارے حوالے سے پریشانی رکھتی ہے، لیکن بدقسمتی سے اس کی وجوہ کچھ اور ہیں۔