Get Alerts

شہباز شریف ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لیے اپوزیشن کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام

شہباز شریف ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لیے اپوزیشن کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام
مسلم لیگ ن میں قیادت کی لڑائی اور رسہ کشی بدستور جاری ہے، پارٹی صدر شہباز شریف وطن واپس پہنچ جانے کے باوجود پارٹی کو عملاً ٹیک اوور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ شہباز شریف کے پاکستان واپس پہنچ جانے کے بعد سے اب تک مسلم لیگ (نواز) کا مریم نواز گروپ اگرچہ خاموشی سے صورتحال کا جائزہ لے رہا تھا اور پارٹی صدر کی وطن واپسی کے بعد بظاہر پس منظر میں چلا گیا تھا لیکن اب اس نے اپنے وجود کا احساس دلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ایک روز قبل مریم نواز گروپ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کے ساتھ پریس کانفرنس کرنے کا اصل مقصد یہی باور کروانا بتایا جاتا ہے کہ ن لیگ کی متبادل اور متوازی قیادت موجود ہے کیوں کہ پارٹی صدر شہبازشریف وطن واپسی کے بعد بھی پارٹی کی متحدہ و متفقہ حمایت حاصل نہیں کر پائے اور نہ پارٹی پر اپنی گرفت قائم کر پائے ہیں۔ حتیٰ کہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کو بھی ابھی تک پارٹی صدر کے ساتھ نہیں دیکھا گیا ہے۔

ن لیگ کے مریم نواز گروپ نے ایک مختصر وقفے کے بعد دوبارہ فعال ہونے اور پھر سے منظر عام پر آنے کا فیصلہ یہ حقیقت واضح ہو جانے کے بعد کیا کہ پارٹی صدر شہباز شریف کے پرو اسٹیبلشمنٹ ہونے کے باوجود ہاتھ ہو گیا ہے، جنہیں خود اس وقت حیرت کا شدید جھٹکا لگا جب NAB کی ایک ٹیم انہیں 17 مارچ کو پیش ہونے کا نوٹس موصول کروانے ماڈل ٹاؤن پہنچی۔

ذرائع کے مطابق اس وقت انہیں احساس ہوا کہ دراصل ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے، جنہیں مقتدر حلقوں کی طرف سے یقین دہانیوں کے خصوصی ہنگامی پیغام کے ذریعے فوری وطن واپس بلوایا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان واپسی سے پہلے انہیں کسی بھی قسم کی انتقامی کارروائی سے تحفظ کی یقین دہانی کروائی گئی تھی مگر نیب میں طلبی کا نیا سمن موصول ہونے کے بعد شہبازشریف کو خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ 17 مارچ کو نیب میں پیشی پر انہیں بٹھا ہی نہ لیا جائے، مطلب حراست میں ہی نہ لے لیا جائے۔ اسی لئے شہباز شریف نے بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان سمیت اپوزیشن جماعتوں کی قیادت سے ٹیلیفونک رابطے شروع کیے اور کہا کہ آئیں مل بیٹھ کے اپوزیشن کی کوئی مشترکہ حکمت عملی بنائیں۔

تاہم ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر تمام اہم اپوزیشن قائدین میں سے کسی نے بھی انہیں رسپانس یعنی کوئی مثبت اور حوصلہ افزا جواب نہیں دیا کیونکہ ان کے خیال میں شہباز شریف کسی قومی کاز کے لئے ان کا ساتھ نہیں بلکہ ذاتی مشکلات کی وجہ سے ان کی حمایت چاہ رہے ہیں، جب انہیں اپوزیشن کو متحد کرنے کے لئے شہبازشریف کی ضرورت تھی، تب تو انہوں نے کوئی لفٹ نہیں کروائی اور اب جب انہیں ذاتی طور پر مشکلات کا خدشہ محسوس ہو رہا ہے تو متحدہ اپوزیشن یاد آ گئی ہے۔

قبل ازیں مریم نواز کی شہباز شریف سے ملاقات کروانے کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ ذرائع کے مطابق پارٹی قائد نواز شریف نے مریم نواز کو ہدایت کی تھی کہ شہباز شریف پارٹی صدر ہیں اور آپ کے چچا ہیں اور بڑے ہیں اس لئے ایک بار ماڈل ٹاؤن جا کر ان سے ملاقات کر لیں، لیکن ذرائع کے مطابق مریم نواز نے اپنے والد اور پارٹی قائد کی یہ ایڈوائس ماننے سے صاف انکار کر دیا ہے۔