کرونا ویکسین کے خلاف غیر سائنسی خیالات اور دائیں بازو کی سیاست

کرونا ویکسین کے خلاف غیر سائنسی خیالات اور دائیں بازو کی سیاست
اس سال کی ابتدا میں پاکستانی نژاد برطانوی طبیب ڈاکٹرعادل اقبال کا وڈیو انٹرویو دنیا بھر میں وائرل ہوا جس میں وہ انتہائی خود اعتمادی سے اپنے سننے والوں کو بتاتے ہیں کہ کرونا وائرس کی کوئی حقیقت نہیں یہ محض ایک فریب ہے۔برطانوی اسپتالوں میں ایک موت بھی کرونا کے سبب نہیں ہوئی بلکہ مختلف امراض سے انتقال کر جانے والوں کو کرونا کا مریض بنا دیا جاتا ہے۔ اس وڈیو میں وہ یہ انکشاف کرتے ہیں کہ یہ ایک منظم سازش ہے جسے تیار کرنے میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، یونیسیف، ہلیری کلنٹن اور بل گیٹس سب شامل ہیں جن کا اصل منصوبہ یہ ہے کہ کورونا کی مدافعتی ویکسین لگانے کی آڑ میں ساری دنیا کے انسانوں میں ایک چھوٹی سی چِپ نصب کردی جائے جو پھر فائیو جی ٹیکنالوجی کے ساتھ انسانی زندگی مختصر کردے گی، تولیدی صلاحیت چھین لے گی اور یوں ساری دنیا پر کنٹرول کرلیا جائے گا۔


برطانیہ کی جنرل میڈیکل کونسل نے ڈاکٹر عادل کی وڈیوز اور انٹرویوز کے پیش نظر 'عوام کی حفاظت اور ان کا اعتماد قائم رکھنے کے لئے' سال بھر کے لئے ان کا لائسنس معطل کردیا ہے اور ان کی 'فٹنس ٹو پریکٹس' کی انکوائری جاری ہے۔ جبکہ ان کی مزکورہ وڈیو بھی یو ٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا سے ہٹا دی گئی ہے۔


کسی سائنسی حقیقت کو رَد کرنے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود سائنس۔ انیسویں صدی میں فرانسیسی مائیکرو بیالوجسٹ لوئی پاسچر کی طرف سے پیش کردہ نظریہ کہ نظر نہ آنے والے جراثیم بیماری کا سبب بنتے ہیں سالہاسال موضوعِ بحث رہا۔ اسی طرح حفاظتی ٹیکوں کا وسیع نظام جو 1974 سے دنیا کے سارے ممالک میں رائج ہے ویکسینیشن کے جس سائنسی نظریہ پر قائم ہے اس کی ہر دور میں شدید مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ انسانوں کی اکثریت نامعلوم کے خوفFear of the unknown کا شکار ہوتی ہے جو انہیں نئے تجربات کرنے اور نئے خیالات قبول کرنے سے روکتا ہے۔


سیاست میں رائٹ ونگ یا دائیں بازو کے رحجانات کا تعلق بھی قدامت پسند اقدار سے ہے۔ ہر ملک میں مقتدر طبقہ چاہے وہ اجارہ دار سرمایہ دار ہوں، جاگیردار یا کوئی اور .... عوام میں قدامت پسند خیالات کو فروغ دیتے ہیں تاکہ وہ ایسے مطالبات نہ کریں جن سے طاقت کا توازن تبدیل ہو اور ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچے۔ صحتِ عامہ پر ہونے والے اخراجات بہت سے مفاداتی گروہوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ ذرا سا غور کرنے پر یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ دائیں بازو کا تعلق کسی بھی ملک، قوم یا مذہب سے ہو وہ کورونا وائرس سے ابھرنے والے انتہائی گھمبیر انسانی بحران میں اپنے اپنے حلقہء اثر میں یکساں رویہ کا اظہار کرتا رہا ہے۔


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ پورا سال ہی خود امریکی سائنس دانوں اور ڈاکٹرز کی دی ہوئی معلومات و ہدایات کی لفظی اور عملی نفی کرتے ہوئے گزارا۔ انہوں نے کئی دفعہ امریکی عوام کو بتایا کہ کورونا موسمی فلو سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ انہوں نے خوش خبری دی کہ ایک دن یہ معجزاتی طور پر غائب ہوجائے گا۔ اورآپ نے ڈرنا نہیں ہے۔ یہ خود بخود دفعان ہوجائے گا، گرم موسم آتے ہی اس کا صفایا ہوجائے گا، ریلیکس، بہت پہلے ہی ویکسین پر شک و شبہ کا اظہار کرتے ہوئے وہ بولے: "ہم نہیں چاہیں گے کہ علاج اصل بیماری سے بھی بدتر ہو"

فیما FEMA فوج نے کیا زبردست کام کیا ہے، بجائے اس کے کہ ہم (صحافیوں کی طرح) ان سے سوال کریں ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ اس کے لئے ویکسین کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

جس وقت امریکہ میں سب سے زیادہ اموات ہورہی تھیں انہوں نے اپنے عوام کو تسلی دی۔"ہماری اموات کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے"

میں اس( بائیڈن) کی طرح ہر وقت ماسک نہیں پہنتا۔ زیادہ اموات! ہم زیادہ اموات میں جیت رہے ہیں۔ وہ (بائیڈن) سائنسدانوں کی بات پر کان دھرتا ہے۔ اگر میں ایسا کرتا تو ہمارا ملک شدید مالی بحران کا شکار ہوتا۔ ہم ایک راکٹ شپ ہیں۔

اگر کوئی کورونا سے مرتا ہے تو ہمارے ڈاکٹروں کی جیب میں خوب پیسہ جاتا ہے، لہذا وہ ہر مشکوک موت کو کورونا بتا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ

پابندیوں کے باوجود الیکشن مہم کے آخری ایام میں ایک بہت بڑے ہجوم سے " فاؤچی کو برخاست کرو" Fire Fauci کے نعروں لگوانے کے بیچ ٹرمپ نے دوبارہ صدر بنتے ہہ متعدی امراض کے اس تجربہ کار ماہر کو نکال باہر کرنے کا وعدہ کیا۔


برازیل کے مردِ آہن بولسنارو کو "ٹراپیکل ٹرمپ" بھی کہا جاتا ہے۔ برازیل میں جیسے ہی وبا سے ہونے والی اموات میں اضافہ ہوا انہوں نے اعلان کیا کہ"زندگی رواں دواں رہنی چاہئے۔ نوکریاں چلتی رہنی چاہیئں۔" انہوں نے شاپنگ مالز میں جا کر لوگوں کو نارمل روٹین جاری رکھنے کی عملی تلقین کی، بغیر ماسک لگائے عوامی ہجوم میں جا کر اور وہاں موجود حامیوں کو گلے لگا کر کورونا سے احتیاطی تدابیر کا تمسخر اڑایا۔ ٹرمپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے بھی کورونا کے غیر ثابت شدہ علاج کلوروکوئین کو مشتہر کیا جس سے اس کی عالمی قلت پیدا ہوئی۔ انہوں نے اپنے اس طرز عمل کے ناقد اپنے ہی وزیر صحت کو جو آرتھو پیڈک سرجن تھے کو برطرف کردیا ۔ بعد میں آنے والے وزیرِ صحت نے جو سرطانیات کے ماہر ہیں نے بھی ان سے اختلاف کرتے ہوئے مستعفی ہونے میں عافیت جانی۔ ان کی جگہ بالآخر ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل کو وزارت صحت سونپ دی گئی۔

پچھلے ہفتے بولسنارو نے اعلان کیا کہ وہ کورونا کی ویکسین نہیں لگوائیں گے.


پاکستان میں ہر خاص و عام جانتا ہے کہ نریندر مودی کی جماعت ہندو انتہا پسند تنظیم ہے۔اس جماعت کے ایک بڑے رہنما اور اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی ادیتیاناتھ نے ایک عوامی جلسے میں لوگوں کو بتایا کہ اگر یوگا کرکے دماغی سکون حاصل کرلیا جائے تو کورونا وائرس سے بچنا ممکن ہے۔ اسی طرح آسام میں بی جے پی کی رکن اسمبلی سمن ہری پریا نے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر گائے کے گوبر اور پیشاب کو کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کا شاندار نسخہ قرار دیا۔


پاکستان کی بات کریں تو وہاں میڈیا پر غیر سائنسی پروپیگنڈا کی بڑی مضبوط روایت ہے۔ ایک مشہور اینکر "اینڈ آف ٹائم" کے عنوان سے بڑے مقبول پروگرام کرتے رہے۔ پچھلے کئی سال سے عام رسم چلی ہے کہ ہر مسئلے پر علمائے دین اور مفتیانِ شرعِ متین کو ٹی وی پروگرامز میں مدعو کرکے ہر دنیاوی معاملے میں ان کی قیمتی آراء لینا ازحد ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کرونا میں تیزی آنے کے ساتھ جب سعودیہ میں حرم بند کردیا گیا اور عمرہ و حج تک موقوف کردیا گیا تو پاکستانی مفتیوں کی مساجد کھلے رکھنے اور محرم کے جلوس نکالنے کی ضد سے ایک عجیب صورتحال پیدا ہوگئی اور یہ ظاہر ہوا کہ ان کی سوچ کتنی ساکت و جامد اور جدید دنیا، اس کے مسائل سے کوسوں پرے ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ انسانی جان اور تکلیف کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ کتنے ہی علماء اب تک کورونا کا شکار ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔


میڈیا پر اتائیت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور یہ سمجھ نہیں آتا کہ پاکستان میڈیکل کونسل اس بارے میں کوئی اقدام کیوں نہیں کرتی یا پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کیوں ٹی وی چینلز کو متنبہ نہیں کرتی۔ لیکن غیر باقاعدہ میڈیا کی حالت تو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ حقیقت ٹی وی نام کا ایک یو ٹیوب چینل ہے جس پر اپ لوڈ کی ہوئی وڈیوز کو لکھوکھا افراد دیکھتے ہیں۔ بظاہر یہ وڈیوز پاکستانی دفاعی نکتہء نظر کی حامی ہوتی ہیں لیکن ساتھ ساتھ کورونا وائرس کے حوالے سے انتہائی گمراہ کن سازشی نظریات کا پرچار بھی ملتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان دنیا کا وہ آخری ملک ہے جس میں پولیو ویکسین پلانے والے درجنوں ورکرز کو قتل کیا جاچکا ہے۔ پولیو سینٹر کو بم سے اڑایا جاچکا ہے اور چند سال قبل تک پاکستان سے بیرونِ ملک جانے کے لئے پولیو ڈراپ پینے کا ثبوت ساتھ لے جانا پڑتا تھا۔


ڈاکٹر عادل کے علاوہ سوشل میڈیا پر جو وڈیوز گردش کررہی ہیں ان میں سے ایک آئرش پروفیسر ڈولوریس کاہل کی ہے جو دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت آئرش فریڈم پارٹی کی چیئروومن ہیں۔ یہ جماعت آئرلینڈ کی یورپ سے علیحدگی چاہتی ہے اور ساتھ ہی امیگریشن بالخصوص مسلمان پناہ گزینوں کی آئرلینڈ میں آمد اور سکونت کی سخت مخالف ہے۔ فی الوقت یہ جماعت وہاں بننے والے اس قانون کے خلاف سرگرم عمل ہے جو آئرش سرزمین پر پیدا ہونے والے ہر بچے کو خود بخود آئرش شہری قرار دیتا ہے۔ اس تنظیم کا رابطہ برطانوی رائٹ ونگ سیاستدان نائجل فراج سے بھی ہے یہ وہی صاحب ہیں جن کا برطانیہ سے یورپ سے علیحدگی کے ریفرنڈم میں بہت اہم کردار تھا۔ اب انہوں نے ریفارم پارٹی کے نام سے نئی جماعت قائم کی ہے جو لاک ڈاؤن کے خلاف مظاہرے کررہی ہے۔