نواز شریف کیس میں آڈیو ریکارڈنگ تنازع برطانوی میڈیا میں بھی زیر بحث، گارڈین کی رپورٹ

نواز شریف کیس میں آڈیو ریکارڈنگ تنازع برطانوی میڈیا میں بھی زیر بحث، گارڈین کی رپورٹ
معروف برطانوی جریدے گارڈین نے اپنی حالیہ رپورٹ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو سامنے آنے کے بعد ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔

گارڈین میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک آڈیو ریکارڈنگ سامنے آنے کے بعد پاکستان کی عدلیہ کی آزادی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے جس میں سابق چیف جسٹس کو مبینہ طور پر یہ اعتراف کرتے ہوئے سنا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے خلاف مقدمے میں سزا دینے اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو لانے کے لئے ان پر دباؤ ڈالا گیا تھا۔

گارڈین نے کہا کہ اس ریکارڈنگ کی گارڈین نے آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی ہے، تاہم اس نے پاکستان میں ہنگامہ برپا کر دیا ہے اور ایک بار پھر ملک کی عدلیہ کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے، جو طویل عرصے سے فوج کی مداخلت کے الزامات سے داغدار ہے۔

گارڈین کے مطابق آڈیو کلپ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو مبینہ طور پر یہ کہتے ہوئے سنا جا رہا ہے کہ: ’’مجھے اس بارے میں دو ٹوک کہنے دیں کہ بدقسمتی سے یہ فیصلے ادارے کرتے ہیں‘‘۔ “اداروں” کا حوالہ فوج کے لئے لیا گیا ہے، جو پاکستان کی سیاست پر مضبوط گرفت رکھتی ہے حالانکہ تکنیکی طور پر ملک میں سویلین حکومت ہے۔

ثاقب نثار مبینہ طور پر پھر کہتے ہیں کہ: اس معاملے میں ہمیں میاں صاحب کو سزا دینا پڑے گی۔ نواز شریف کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ “میرٹ سے قطع نظر”، کیس کا فیصلہ نواز شریف اور ان کی بیٹی کے خلاف جائے گا۔

مبینہ آڈیو ٹیپ کا پس منظر 2018 کا وہ کیس ہے جس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بدعنوانی کے الزام میں 10 سال اور ان کی بیٹی مریم نواز کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ کیس منی لانڈرنگ اور لندن میں لگژری پراپرٹی کی ملکیت سے متعلق ہے۔

مبینہ آڈیو ٹیپ میں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ یہ “خان صاحب کو لانے” کے لئے ہے، جس کی تشریح موجودہ وزیر اعظم کے تناظر سے کی گئی ہے۔

گارڈین کے مطابق ٹیپ میں جج کو یہ اعتراف کرتے ہوئے بھی سنا گیا کہ نواز شریف سزا کے مستحق نہیں، انہوں نے مزید کہا: “میں نے دوستوں سے بات کی تھی کہ اس بارے میں کچھ کیا جائے لیکن وہ نہیں مانے، اس میں عدلیہ کی آزادی بھی نہیں رہے گی۔ لیکن چلیں۔۔۔”

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ مبینہ آڈیو ٹیپ پر کس سے بات کی جا رہی تھی۔

گارڈین رپورٹ کے مطابق ثاقب نثار نے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آڈیو ریکارڈنگ جعلی ہے، اور انہوں نے کسی بھی غلط کام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ “یہ من گھڑت ہے۔ میں نے اس معاملے پر کبھی کسی سے بات نہیں کی۔ یہ میرے خلاف ایک سازش ہے۔‘‘

گارڈین کے مطابق یہ کلپ اصل میں پاکستانی تحقیقاتی نیوز سائٹ فیکٹ فوکس نے اس ماہ حاصل کیا تھا اور اس سائٹ نے اسے امریکہ میں قائم ایک آزاد فرانزک کمپنی گیریٹ ڈسکوری سے تصدیق کے لئے بھیجا تھا۔

گیریٹ ڈسکوری نے رپورٹ کیا کہ جو ریکارڈنگ اسے بھیجی گئی تھی اس میں کوئی ہیرا پھیری، چھیڑ چھاڑ یا ترمیم نہیں کی گئی تھی۔ تاہم، ریکارڈنگ کی اصلیت ابھی تک نامعلوم ہے، اور گیریٹ اس بات کی تصدیق بھی نہیں کر سکا کہ آیا یہ اصل ریکارڈنگ تھی یا آڈیو کی ثانوی ریکارڈنگ جس میں ہیرا پھیری کی گئی ہو۔

گارڈین کے مطابق کمپنی نے کہا کہ چونکہ اس نے آڈیو کی توثیق کی تھی، اس لئے اسے تشدد کی دھمکیاں دی گئیں اور اس کی تصدیق واپس لینے کے لئے کالز بھی موصول ہوئی تھیں۔

گارڈین نے رپورٹ کیا کہ اس ریکارڈنگ کے سامنے آنے کے تین دن بعد مبینہ آڈیو شائع کرنے والے صحافی احمد نورانی کی سابق اہلیہ پر لاہور میں نامعلوم حملہ آور نے حملہ کر دیا اور ان کی گاڑی کو نقصان پہنچایا۔ پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ احمد نورانی نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ واقعہ آڈیو ریکارڈنگ سے منسلک ہے یا نہیں۔

گارڈین کے مطابق جج کے انکار کے باوجود، آڈیو کی ظاہری شکل نے عمران خان کی حکومت کے گرد آگ لگا دی ہے۔ عمران خان ایک سابق کرکٹر سے سیاست دان بنے ہیں جو فوج سے اپنے قریبی تعلقات کے لئے جانے جاتے ہیں۔ ان کے دور حکومت میں فوج نے طاقت پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے جسے اب ایک ہائبرڈ سویلین ملٹری حکومت کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن عمران خان اور فوج ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

گارڈین نے کہا کہ اگر اس ریکارڈنگ کی تصدیق ہو گئی تو اس بات کی توثیق کی جا سکتی ہے کہ فوج نے عدلیہ پر سابق وزیر اعظم کو مجرم ٹھہرانے کے لئے دباؤ ڈالا، تاکہ نواز شریف کو عمران خان کے لئے ایک سیاسی رکاوٹ کے طور پر ہٹایا جائے، جو اسی مہینے کے آخر میں منتخب ہوئے جس ماہ نواز شریف کو سزا دی گئی۔

پاکستان کے صف اول کے صحافیوں اور مبصرین میں سے ایک حامد میر نے گارڈین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “اس آڈیو نے اس الزام کو مزید حقیقت فراہم کی ہے کہ عمران خان کو طاقتور اور غیر سیاسی قوتوں نے حکومت میں بٹھایا تھا”۔

نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے آڈیو کلپ کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے کہا گیا ہے کہ وہ اس کی صداقت کا پتہ لگانے اور سابق وزیر اعظم کی سزا کی تحقیقات کے لئے ایک آزاد کمیشن بنائے۔

دوسری جانب نواز نے کہا کہ “بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ ایسے ججوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے فوجی آمروں کے ساتھ مل کر قانون کی حکمرانی کو کمزور کیا۔ پوری تاریخ میں کسی بھی حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ مثال بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔”

پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت اس معاملے کی تحقیقات نہیں کر سکتی کیونکہ یہ اب عدالتوں کا معاملہ ہے۔

سینیئر وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد نے گاڈئین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ سیاستدانوں اور وزرائے اعظم کو ججوں کے غلط الزامات میں قید کرنے سے بھری پڑی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ ججوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے سے لے کر شریف کو سزا دینے تک جو کچھ کیا ہے وہ ہماری سیاہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن اسے اب بدلنا ہوگا۔ مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات ہونی چاہیے اور عدلیہ کو غیر جانبدار رہنا چاہیے۔