عدالتی اصلاحات بل: فل کورٹ اور جسٹس مظاہر کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا مسترد

عدالتی اصلاحات بل: فل کورٹ اور جسٹس مظاہر کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا مسترد
سپریم کورٹ آف پاکستان چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بنانے اور جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس آنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ جب تک ریفرنس سماعت کے لیے مقرر نہ ہو اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں بینچ اس بارے میں فیصلہ دے چکا۔ سیاست نے عدالتی کارروائی کو گندا کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججز کا جاری کیا گیا حکم سب پر لازم ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اظہر حسن رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

مذکورہ بل پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزر جانے پر از خود منظور ہوکر 21 اپریل کو قانون کی شکل اختیار کرچکا ہے تاہم سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے 13 اپریل کو مجوزہ قانون پر عمل درآمد روک دیا تھا۔

درخواست گزار راجہ عامر کے وکیل امتیاز صدیقی میں پیش ہوئے۔ مسلم لیگ ن نے بیرسٹر صلاح الدین اور پیپلز پارٹی نے فاروق ایچ نائیک کو وکیل مقرر کیا ہے۔ پاکستان بار کونسل کی جانب سے حسن رضا پاشا عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو روسٹرم پر بلالیا۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ کچھ فریقین کے وکلا ویڈیولنک پر پیش ہوں گے۔ مسلم لیگ ن نے بیرسٹرصلاح الدین، پیپلز پارٹی نے فاروق نائیک کو وکیل مقرر کیا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی آخری سماعت نہیں، سب کو سنیں گے۔ ہمارا گزشتہ سماعت کا حکمِ امتناع برقرار ہے۔ اس کیس میں عدلیہ کی آزادی سمیت دیگر اہم نکات سامنے آئے۔یہ ایک منفرد کیس ہے۔ سپریم کورٹ کے رولز کے بارے میں قانون واضح ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تمام فریقین کے وکلا تحریری دلائل جمع کرائیں۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا منفرد قانون ہے۔ قانون سازی سے متعلق پارلیمنٹ کی کارروائی کے منٹس پیش کیے جائیں۔ریاست کے تیسرے ستون یعنی عدلیہ کو اس قانون پر تحفظات ہیں۔

سماعت کے آغاز پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل طارق رحیم نے کہا کہ عدالتی اصلاحات بل قانون کا حصہ بن چکا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ حکم نامہ عبوری نوعیت کا تھا۔جمہوریت آئین کا اہم جزو ہے۔آزاد عدلیہ اور وفاق بھی آئین کے اہم جزو ہیں۔دیکھنا ہے کہ کیا عدلیہ کا جزو تبدیل ہو سکتا ہے؟ عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے۔

سپریم کورٹ نے عدالتی اصلاحات پر پارلیمنٹ اور قائمہ کمیٹی میں ہونے والی بحث کا ریکارڈ طلب کر لیا۔

جسٹس مظاہر کو بینچ سے الگ کرنے کا مطالبہ

پاکستان بار کونسل نے جسٹس مظاہر علی نقوی کو بینچ سے الگ کرنے کا مطالبہ کر دیا جبکہ چیئرمین ایگزیکٹیو کمیٹی پاکستان بار کونسل نے سینئر ججز کو بینچ میں شامل کرنے کی استدعا کر دی۔

حسن رضا پاشا نے دلائل دیتے ہوئے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا نام لیے بغیر ان پر اعتراض کیا اور کہا کہ بینچ کے ایک ممبر کے خلاف بار کونسل کی جانب سے6 ریفرنس دائر کیے جا چکے ہیں. مناسب ہو گاکہ وہ اس بینچ میں شامل نہ ہوں اور کیس کو نہ سنیں کیونکہ اس سے معاملہ سیاسی نوعیت کا ہو جائے گا.

چیف جسٹس نے کہا کہ ریفرنس صرف صدر مملکت دائر کر سکتے ہیں باقی شکایات جو جوڈیشل کونسل میں ہیں وہ مجھ سمیت کئی سینئر ججز کے خلاف ہیں شکایات آتی رہتی ہیں۔قانون بڑا واضح ہے کہ جب ریفرنس آجائے یا شکایت آجائے تو جج کو کام سے کسی صوررت نہیں روکا جا سکتا۔ آپ تو نفیس آدمی ہیں پھر یہ بات کر رہے ہیں کہ تمام ججز پر مشتمل بینچ بنایا جائے ۔لیکن آپ اپنے دائیں بائیں ساتھیوں سے پوچھیے گا کہ ان کی نظر میں فل کورٹ کیاہے ۔

پاکستان بار کی استدعا مسترد

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان بار کی فل کورٹ بنانے اور جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس آنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں.جب تک ریفرنس سماعت کے لیے مقرر نہ ہو اس کی کوئی اہمیت نہیں. سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں بینچ اس بارے میں فیصلہ دے چکا. سیاست نے عدالتی کارروائی کو گندا کر دیا ہے.سپریم کورٹ کے ججز کا جاری کیا گیا حکم سب پر لازم ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں اور وکلاء تنظیموں سے 8 مئی تک جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔عدالت نے سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل پر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ اور قائمہ کمیٹی میں ہونے والی بحث کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔

خیال رہے کہ 14 اپریل کو عدالت نے 9 سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ قانون پرکسی بھی انداز میں تاحکم ثانی عمل درآمد نہیں ہوگا ۔ آٹھ صفحات کے پیشگی حکم امتناع میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کے بارے میں بل کو جس لمحے صدر کی منظوری مل جاتی ہے یا (جیسا کہ معاملہ ہو) یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس طرح کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اسی لمحے سے اور اگلے احکامات تک جو ایکٹ وجود میں آئے گا۔ وہ نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی طریقے سے اس پر عمل کیا جائےگا۔

آٹھ رکنی بینچ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو اس کے صدر کےذریعے پاکستان بار کونسل کو اس کے وائس چیئرمین کے ذریعے نوٹس جاری کیا جب کہ 9سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس جاری کیا۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ اگر یہ سیاسی جماعتیں چاہیں تو اپنے وکیل کے ذریعے حاضر ہو سکتی ہیں۔ان 9 سیاسی جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ،پاکستان تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ،بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ق) شامل ہیں۔