Get Alerts

"کہاں سے آرہے ہو، کہاں جارہے ہو؟" اس سوال سے گوادر کے شہری بیزار

ساٹھ سالہ عبدالرحیم گوادر شہر کے نواحی علاقے نِگْوَر شریف کا رہائشی ہے۔ لیکن اُن کی زرعی زمینیں اور بزرگوں کی قبریں پہاڑی کی دوسری طرف گوادر آنکاڑہ ڈیم کے پیچھے "کنڈا سول" نامی دیہات میں واقع ہیں۔ اپنی زمینوں پر جانے کے لیے وہ مسلسل تین ہفتوں سے چکر لگا رہے ہیں مگر آنکاڑہ ڈیم پر واقع چیک پوسٹ سے انھیں اجازت نہیں مل رہی۔ عمر رسیدہ عبدالرحیم نے اِس اتوار کے دن اس امید کے ساتھ اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کو اکھٹا کرکے ایک پک اپ گاڑی کرایہ پر لی کہ اب کی بار شاید انھیں اپنی زمینوں پر جانے کی اجازت مل جائے۔ وہ اپنی ماں کی قبر پر فاتحہ بھی پڑھے اور آتے ہوئے جلانے کے لیے لکڑیاں بھی لے آئے مگر اس دفعہ بھی انھیں نا امیدی ہوئی۔ وہ غمزدہ بھی ہیں اور غصے میں بھی۔ عبدالرحیم کہتے ہیں کہ وہ اپنی سر زمین پر اجنبی ہیں۔ وہ کہتے ہیں "ہم اپنی زمینوں پر لکڑیاں کاٹنے جاتے ہیں اور کئی مہینوں بعد اپنے بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے جاتے ہیں مگر ہمیں بلاوجہ وہاں جانے کی اجازت نہیں" وہ شکایت کرتے ہیں کہ آج تیسرا اتوار ہے وہ کرایہ پر گاڑی لے کر یہاں آتے ہیں لیکن انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

گوادر میں عوامی تحریک "بلوچستان کو حق دو" کی جانب سے گزشتہ پانچ دنوں سے گوادر پورٹ کے سامنے شہید لالا حمید چوک پر دھرنا جاری ہے۔ گزشتہ سال "حق دو تحریک" اور حکومت بلوچستان کے مابین مذاکرات ہوئے تھے جس کے بعد بتیس دنوں سے جاری دھرنا ختم کیا گیا تھا۔ لیکن ایک سال کے بعد دوبارہ اسی مقام پردھرنا دیا جارہا ہے۔ تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کا موقف ہے کہ گزشتہ سال کے دھرنے میں حکومت بلوچستان نے مطالبات منظور کرنے کے بعد وعدہ خلافی کی ہے۔ اُن کے مطالبات میں سمَنْدر میں غیر قانونی ٹرالرز کو روکنا، پاک ایران سرحد پر تجارت کی آزادی اور چیک پوسٹوں پر عوام کی تذلیل کو روکنا وغیرہ سرفہرست مطالبات تھے۔ لیکن ان کے بقول ان مطالبات پرعمل نہیں کیا گیا ہے جس کے خلاف وہ 27 اکتوبر سے دوبارہ غیر معینہ مدت کے لیے دھرنا دے رہے ہیں۔

دھرنے میں مَکُّران بھر سے لوگ شرکت کرنے آرہے ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کے مطابق اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرنا ان کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان دھرنوں اور احتجاجوں سے کافی تبدیلیاں ہوئی ہیں لیکن جتنا ہونا چاہیے تھا اتنا نہیں ہوا ہے۔ مولانا ہدایت الرحمٰن کا کہنا ہے سی پیک کے مرکز میں  بنیادی سہولیات نہیں ہیں۔ اُن کے مطابق اگراِن کے مطالبات پر عمل نہیں کیا گیا تو وہ گْوادر پورٹ کو بھی بند کریں گے۔

اس وقت دھرنے کے مطالبات میں لاپتہ افراد کی بازیابی، ٹرالرز مافیا کو روکنا، بارڈر ٹریڈ کو شفاف بنانا، منشیات کا خاتمہ اور غیر ضروری چیک پوسٹوں کو ہٹانا وغیرہ شامل ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال بھی بتیس دنوں کے دھرنے کے بعد حق دو تحریک اور حکومت بلوچستان کے مابین مذاکرات میں یہ مطالبات شامل تھے مگر بقول مظاہرین حکومت بلوچستان نے انھیں سنجیدہ نہیں لیا۔ مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے آج دھرنے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں یہ بار بار احساس دلایا جارہا ہے کہ بلوچستان ایک تجربہ گاہ ہے اور یہاں جنگی تجربے کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں اپنی ہی سرزمین پر دن میں کئی بار اپنی شناخت کرانے کا کہا جاتا کہ کہاں سے آرہے ہو، اور کہاں جارہے ہو؟

بعض لوگوں کے خیال میں گزشتہ سال کے دھرنے کی نسبت یہ دھرنا کمزور ہے۔ نوجْوان آصف بلوچ اس کی وجہ جماعت اسلامی سے مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کی وابستگی کو قرار دیتے ہیں۔ اُن کے مطابق بلدیاتی الیکشن میں حق دو تحریک کی کامیابی کو جماعت اسلامی نے گوادر میں اپنی کامیابی دکھانے کی کوشش کی تھی جس سے گوادر کے لوگ شاید ناخوش ہیں کیونکہ بلوچ سماج میں جماعت اسلامی کے لیے فی الحال کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ گنجائش بنانا اس تحریک کو کمزور کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں "میرے خیال میں گزشتہ سال کی نسبت اس سال لوگوں میں وہ جوش و جزبہ نہیں ہے کیونکہ لوگوں میں اب بھی یہ خدشہ ہے کہ کہیں اس تحریک کو جماعت اسلامی ہائی جیک نہ کرلے، گو کہ لوگ باقی پارٹیوں اور خصوصاً گوادر میں گزشتہ کئی دہائیوں سے نمائندگی کرنے والوں سے بیزار ہیں لیکن پھر بھی وہ جماعت اسلامی کو قبول نہیں کرتے" تاہم اس تحریک میں شامل قوم پرست رہنما حسین واڈیلا کے مطابق اس تحریک کو کوئی بھی ہائی جیک نہیں کرسکتا کیونکہ یہ عوامی تحریک ہے اور عوام نے اسے پہلے سے ہائی جیک کیا ہوا ہے۔

گوادر میں جاری اس دھرنے سے متعلق سینئر صحافی اور گوادر پریس کلب کے صدر سیلیمان ہاشم اپنی ایک پوسٹ میں لکھتے ہیں کہ 11 ماہ میں سمندر مزید تاراج ہوا ہے محکمہ فشریز ٹرالرز مافیا کو لگام دینے میں ناکام ہے۔ ایسے میں جب عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے تو عوامی سیلاب ضرور آئے گا۔ یہی وہ سیلاب ہے جو مولانا کی آواز بن کر ابھری ہے۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالب علم ہیں۔