مایہ ناز قانون دان ، نامور ٹریڈ یونینسٹ اور انسانی حقوق و قانون کی بالا دستی پر یقین رکھنے والے جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی مختصر علالت کے بعد کراچی میں انتقال کر گئے۔ وہ کچھ عرصے سے بیمار تھے اور علاج کی غرض سے انہیں مقامی ہسپتال میں داخل کروایا گیا، رشید اے رضوی کچھ عرصہ سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور یہ مرض ان کی وفات کا سبب بنا۔
رشید اے رضوی پاکستان کے بڑے قانون دانوں میں سے ایک تھے، انہوں نے ہمیشہ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کیلئے کام کیا اور جمہوریت پر بہت یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا اور اپنے وقت کی نامور تنظیم ’’ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ کے رکن رہے اور اس کی کور کمیٹی میں بھی شامل تھے، مرحوم جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی سیاست میں معراج محمد خان کو اپنا استاد مانتے تھے اور اپنی حیات میں کہا کرتے تھے کہ آج وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اور معراج محمد خان کے بتائے ہوئے اصول ہی ان کے لئے مشعل راہ ہیں جبکہ وہ یہ بھی کہا کر تے تھے کہ ’’ میں نے معراج محمد خان سے بطور طالب علم اور اسکے بعد بھی بہت کچھ سیکھا‘‘۔ رشید اے رضوی مرحوم معراج محمد خان جماعت ’’ قومی محاذ آزادی‘‘ کیساتھ ہمدردی بھی رکھتے تھے۔
جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی کا شمار ان ججوں میں ہوتا ہے جنہوں نے 27 جنوری 2000ء میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا تھا۔
رشید اے رضوی مرحوم سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہے، پاکستان بار کونسل کے رکن بھی رہے جبکہ انکا تعلق حامد خان کے ’’ پروفیشنل گروپ‘‘ سے تھا۔رشید اے رضوی ، منیر ملک ایڈووکیٹ اور حامد خان ایڈووکیٹ کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے اور کراچی میں ان کا سب سے زیادہ قریبی تعلق سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن منیر اے ملک ایڈووکیٹ سے تھا۔
رشید اے رضوی جب جج کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد جب دوبارہ وکالت میں آئے تو ان کی ایمانداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت ان کے پاس نہ ذاتی مکان تھا اور نا ہی ذاتی دفتر تھا لیکن انہوں نے دوبارہ وکالت شروع کی اور وکالت میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔
رشید اے رضوی ایڈووکیٹ ٹریڈ یونین کے معاملات کو بہترین انداز میں نہ صرف سمجھتے تھے بلکہ انہوں نے مزدوروں کے حقوق کے لئے کافی جدوجہد بھی کی اور ان کے کیسز بھی لڑتے رہے ۔
رشید اے رضوی مرحوم کے بیٹے کی شادی سابق اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان کی بیٹی سے ہوئی یوں رشید اے رضوی ایڈووکیٹ ان کے سمدھی بھی تھے۔
وکلاء نے رشید اے رضوی کی وفات پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی وفات سے قانون کی حکمرانی، آئین کی بالا دستی ، جمہوریت، سیاست، وکالت کے حوالے سے ایک باب ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ، ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی نائب صدر ربیعہ باجوہ سے رشید اے رضوی کے انتقال پر دلی طور پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وفات یقینا ایک بہت بڑا صدمہ ہے، وہ بیمار تھے اور انہوں نے جو کچھ بھی بطور وکیل خدمات انجام دیں، بطور انسانی حقوق کارکن اور بطور ٹریڈ یونینسٹ جو کردار ادا کیا وہ کبھی نہیں بھلایا جا سکے گا، ربیعہ باجوہ ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ ایک وکیل نہیں بلکہ ایک بڑا آدمی اس دنیا فانی سے کوچ گر گیا،کیونکہ انہوں نے کبھی بھی اپنی زندگی میں اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیاچاہے انہیں اس کی جو بھی قیمت ادا کرنا پڑی مگر وہ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے اور اپنے نظریہ پر چلتے رہے۔ نائب صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کہتی ہیں کہ رشید اے رضوی ایڈووکیٹ کا ذکر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنی کتب میں بھی کیا ہے، جبکہ جمال نقوی کی کتاب ’’ leaving the left behind‘‘ جس کا بعد میں اردو میں ترجمہ بھی شائع ہوا اس میں بھی جمال نقوی نے لکھا کہ وہ اپنے نظریہ پر چلنے والے تھے۔
رشید اے رضوی کے قریبی دوست سابق چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی امجد حسین ملک نے بھی ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ، انہوں نے کہا کہ ’’ میں نے اور خالد پرویز ایڈووکیٹ نے اس وقت بھی رشید اے رضوی کو سپورٹ کیا تھا جب وہ پاکستان بار کونسل کے الیکشن میں امیدوار تھے ۔ امجد حسین ملک ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ مرحوم رشید اے رضوی کو نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کیلئے گراں قدر خدمات انجام دینے کی وجہ سے انہیں اس فیڈریشن کی کور کمیٹی میں شامل کیا گیا تھا۔