مسلم لیگ (ن) کی ساری لیڈرشپ مریم نواز کو اہم سمجھتی ہے مگر اصل مسئلہ ان کے چچا شہباز شریف اور ان کے کزن حمزہ شہباز کا ہے۔ مریم نواز کے نئے عہدے سے عوام اور پارٹی کے کارکنوں کو کوئی خوش آئند پیغام نہیں ملے گا۔ اگر (ن) لیگ واقعی سنجیدہ تھی تو مریم نواز کو پارٹی کی صدر بنا دیا جاتا تاکہ ان کے پاس اختیارات ہوتے اور وہ پارٹی کو بھی منظم کر سکتیں۔ مریم نواز کو سنیئر نائب صدر بنانے سے پارٹی میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔ یہ کہنا ہے کہ سینئر تجزیہ کار ضیغم خان کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ کی صدارت کے لئے شریف خاندان کے اندر چلنے والی رسہ کشی ابھی تک چل رہی ہے۔ مریم نواز کو نواز شریف کے جانے کے بعد سامنے لایا گیا مگر شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد وہ پھر سے بیک فٹ پہ چلی گئی ہیں۔ اب وہ پارٹی کے معاملات میں زیادہ فعال نظر نہیں آ رہی ہیں۔ موجودہ ترقی سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
ضیغم خان نے کہا کہ ایم کیو ایم کی دکان پیپلزپارٹی کے ساتھ لڑائی سے چلتی ہے۔ وہ اس لیے کہ ان کی سیاست کی بنیاد قوم پرستی پہ ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کو بھی سندھ سے ایم کیو ایم کی مخالفت کا ووٹ ملتا ہے۔ ایم کیو ایم کو بھی اس وقت بلدیاتی انتخابات موافق نہیں ہیں۔ تمام صوبائی حکومتیں بلدیاتی الیکشن سے فرار چاہتی ہیں۔ کراچی میں بلدیاتی الیکشن کی صورت میں پیپلزپارٹی کی بجائے ایم کیو ایم کو زیادہ نقصان ہو گا۔ جنرل باجوہ نے کافی کچھ برداشت کیا ہے، اب عمران خان کے برداشت کرنے کا وقت آیا ہے اور اب یہ سلسلہ دن بدن بڑھتا چلا جائے گا۔
نادیہ نقی نے کہا کہ کراچی میں اس وقت ایجنسیز کی رپورٹس کے بعد سیاسی لوگوں میں ایک گھبراہٹ کی صورت حال ہے۔ اگر پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے کراچی اور حیدر آباد نکل جاتے ہیں تو ان کا بڑا سیاسی نقصان ہو گا۔ اس لئے پی پی پی بھی چاہ رہی ہے کہ بلدیاتی الیکشن ملتوی ہو جائیں۔ اسی طرح اگر بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آئی کو بھی زیادہ نشستیں مل گئیں تو حکومتی اتحاد کے لیے مشکلات ہوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم اگر حکومتی اتحاد سے نکلنے کا فیصلہ کرتی ہے تو قومی اسمبلی سے ان کے استعفوں والے معاملے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ اگر صدر عارف علوی وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیں گے تو حکومت کو ایم کیو ایم کی ضرورت ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے وفد اور آصف علی زرداری کے درمیان مذاکرات مثبت طرف جا رہے ہیں، بہرحال ابھی تک ڈیڈ لاک ابھی جگہ پر برقرار ہے۔
ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا تھا کہ حکومت نے توانائی کو بچانے کے لئے اچھا اقدام اٹھایا ہے، پرانے بلب تبدیل کرنے اور ان کے متبادل بلب لانے والا بھی احسن اقدام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال میں انرجی کی درآمدات میں 105 فیصد اضافہ ہوا ہے، یہ درآمدات 11.3 ارب سے لے کر 24 ارب تک پہنچ گئی ہیں۔ پاکستان کی معیشت ان درآمدات کی وجہ سے سنبھل نہیں پا رہی۔ موجودہ حکومت کے پہلے پانچ ماہ میں انرجی کے استعمال میں پچھلے سال کی نسبت 8 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ حکومت کی جانب سے لیا گیا فیصلہ پاکستان کے گردشی قرضے کو بھی کم کرنے میں مدد دے گا۔ اس سے آئی ایم ایف کا پروگرام ملنے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کے اس فیصلے کے خلاف مختلف تاجر تنظیموں اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ایک ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ پاکستان جیسے کمزور قانون اور غیر مؤثر اداروں کی موجودگی میں یہاں پربجلی کے پری پیڈ میٹر لگانے چاہئیں۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ مریم نواز کو پارٹی میں فعال کرنے کے بعد پھر سے غیر فعال کر دیا گیا تھا جس سے فائدے کی بجائے نقصان ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مریم نواز اپنے والد کے بعد ایک کرشماتی شخصیت ہیں۔ اب دیکھنا ہو گا کہ وہ اپنے نئے عہدے کے ساتھ پارٹی میں کتنا سرگرم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
میزبان رضا رومی نے کہا کہ باجوہ صاحب اور فیض حمید نے اس ملک کے آئین اور قانون کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے، اب وہ لیکس کے ذریعے سے پاکستان میں ایک اور انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں جس کی لپیٹ میں سب لوگ آئیں گے۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔