نوجوانوں پر جنسی کارکردگی کا دباؤ: 'مجھے آج بھی وہ وقت یاد آتا ہے تو قہقہہ لگاتا ہوں'

نوجوانوں پر جنسی کارکردگی کا دباؤ: 'مجھے آج بھی وہ وقت یاد آتا ہے تو قہقہہ لگاتا ہوں'
معراج کا تعلق اسلام آباد کے ایک پشتون گھرانے سے ہے اور آج کل وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کا ایک یونیورسٹی کے طالب علم ہیں. ان کا خاندان قبائلی اضلاع میں امن و امان کی ناقص صورتحال کے بعد اسلام آباد ہجرت کر گیا تھا اور یہ ہجرت اس  خاندان کے لئے کسی سانحے سے کم نہیں کیونکہ گاؤں کے لہلہاتے کھیت اور بڑے گھروں کو چھوڑنا ان کے لئے کسی سانحے سے کم نہیں تھا۔ معراج خان کہتے ہیں گیارہ سال کی عمر میں بالغ ہونا ان کے لئے ایک حسین اور رومانوی لمحہ تھا اور ان کو لگا کہ ان کو زندگی میں پہلی بار کسی حسین تجربے کا اتفاق ہوا۔

معراج  کہتے ہیں بلوغت کے بعد ان کو فلمی اداکاروں کی تصویریں اور ویڈیوز اپنے طرف متوجہ کرتی تھی اور وہ ان تصویروں کو دیکھ کر مشت زنی کرتے تھے مگر کچھ وقت بعد ان کے قطرے گرنے شروع ہوئے اور ان پر ذہنی دباؤ بڑھتا گیا. معراج کہتے ہیں بظاہر تو کوئی کمزوری نہیں تھی لیکن جب دوستوں سے اس بارے بات کی تو انھوں نے کہا یہ قطرے آپ کو جنسی طور پر تباہ کردیں گے اور آپ اپنی بیوی کو ازدواجی خوشیاں کبھی نہیں دے پائیں گے۔ جن کی وجہ سے میرے اندر ایک بڑی پریشانی آگئی اور میں اپنے مستقبل کے حوالے سے ڈر گیا اور یہ یقین کرلیا کہ میں اب شادی کے قابل نہیں رہا. معراج کہتے ہیں میرے دوست نے مجھے مشورہ دیا کہ پشاور میں ایک حکیم ہے اور صرف وہ اس بیماری کا ماہر ہے اور اس کے پاس جاکر آپ مکمل صحت یاب ہوجاؤگے. وہ کہتے ہیں کہ میرے لئے سب سے بڑا مسئلہ پیسوں کا تھا کہ میں اپنے والد کو کیا بتاؤنگا کہ مجھے کونسی بیماری ہے کہ مجھے علاج کے لئے پیسے چاہیے. مگر میں نے اس مسئلے کا حل نکالا لیا اور میرے ابو جس صندوق میں پیسے رکھتے تھے میں نے اس کی ڈپلیکیٹ چابی بنالی اور پہلے موقعے پر ابو کے صندوق سے تین ہزار روپے چوری کئے اور صبح صبح سکول کا بستہ آٹھا کر سکول کی بجائے پشاور روانہ ہوا اور حکیم صاحب کے کلینک چلا گیا. حکیم صاحب نے میرا طبعی معائنہ  کیا اور کہا کہ تمھیں جریان کی بیماری لاحق ہوچکی ہے اور تم ایک سال کے علاج کے بعد مکمل طور پر صحتیاب ہوجاؤ گے. معراج کہتے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ اس پر کتنا خرچ آئے گا تو حکیم صاحب نے جواب دیا کہ ایک مہینے کی خوراک پر آپ کے ڈھائی ہزار روپے خرچ ہونگے جو میرے لئے کسی دھماکے سے کم نہیں تھا مگر پھر بھی میں نے ایک مہینے کی دوائی لی. حکیم صاحب نے مجھے کہا کہ ذہن میں غلط خیالات نہ لیکر آیا کرو اور ایسے تصاویر اور ویڈیوز مت دیکھو کیونکہ ان سے آپ کی بیماری بڑھ جائے گی۔ ان سے دوائی لیکر  کلینک سے روانہ ہوا اور جلدی جلدی گھر پہنچا تو ابو نے مار پیٹ کی اورپوچھا کہ آپ کہاں تھے اور انھوں نے مزید تشدد کرتے ہوئے پوچھا تم نے میرے صندوق سے تین ہزار روپے چوری کیئے ہیں۔ مگر میں نے انکار کیا اور ابو نے مجھ پر مزید تشدد کیا. وہ کہتے ہیں کہ جب میں کمرے میں گیا تو امی کو دیکھا اور ان کے چہرے پر تشدد کے نشانات واضح تھے اور ابو نے پیسے چوری کرنے کے الزام میں سب سے پہلے ان پر تشدد کیا تھا. امی پر تشدد دیکھ کر میں صدمے میں چلا گیا اور یہی سوچنے لگا کہ میری کیئے کی سزا امی کو کیوں ملی؟

رات کو کتابوں کے بیگ سے دوائی نکالی تو کیپسول سمیت ان میں دوسرے قسم کی دوائی کشتہ وغیرہ بھی تھا جو میں نے چپکے سے استعمال کی اور دوائی بستر کے نیچے چھپا دی  تاکہ کسی کو نظر نہ آئے. اس دوائی کو ایک ہفتے استعمال کیا لیکن ان سے میرے سفید قطرے مزید زیادہ ہوگئے اور مجھ پر نفسیاتی دباؤ بڑھ گیا اور میں نے حکیم صاحب کو ٹیلیفون کی کہ میری بیماری اور بڑھ گئی تو انھوں نے کہا کہ آپ دو ہزار روپے مزید بھیج دیں میں آپ کو مزید دوائیاں پارسل پر بھیج دیتا ہوں اور یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے لگا کہ یہ فراڈ ہے اور صرف مجھ سے پیسے بٹور رہا ہے اور اس کے بعد میں نے دوائی قریبی کھیتوں میں پھینک دی۔

میری بیماری بڑھتی گئی اور کئی بار میں نے اپنی جان لینے کی کوشش کی مگر کوئی امید مجھے روک دیتی ہے.

 

جویریہ علی ایک کلینکل سائیکالوجسٹ ہیں اور گزشتہ دس سالوں سے مختلف نفسیاتی مسائل پر لوگوں کو راہنمائی فراہم کررہی ہیں. نیا دور کو  انٹرویو  دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ جب بھی یہاں تولیدی صحت اور سیکس ایجوکیشن کی بات ہوتی ہے تو ایک طبقہ فحاشی کا لیبل لگا کر ان کے خلاف مزاحمت شروع کردیتا اور نتیجتاً ان کا خمیازہ ہمارے نوجوان بھگتتے ہیں. انھوں نے کہا کہ اگر نصاب اور میڈیا میں بھی سیکس ایجوکیشن کی بات نہیں ہوتی اور والدین بھی بچوں سے اس حوالے سے بات نہیں کرتے تو پھر یہ نوجوان کدھر جائیں گے. انھوں نے کہا میرے کلینک میں ایسے درجنوں نوجوان آتے ہیں جن کو کوئی بیماری نہیں ہوتی لیکن وہ اپنی تولیدی صحت کے حوالے سے پریشان رہتے ہیں اور کچھ تو خودکشی کے بارے میں بھی  سوچتے ہیں. جویریہ علی کہتی ہے کہ بظاہر قطرے گرنا کوئی بیماری نہیں لیکن نیم حکیموں اور ڈاکٹروں نے ان کو جریان اور پتہ نہیں کیا کیا نام دئیے ہوتے ہیں اور وہ نوجوانوں کو نہ صرف ڈراتے ہے بلکہ ان کو لوٹتے بھی ہے اور نتیجتاً ان کے اثرات بہت خطرناک ہوتے ہیں یا تو وہ نوجوان نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوتے ہیں یا کچھ کیسز میں خودکشیاں بھی سامنے آجاتی ہے. جویریہ علی کہتی ہے کہ میں مختلف میگزین، ویب سائٹس اور اخبارات میں نوجوانوں دیکھتی ہو اور ہزاروں سوالات یہی ہوتے ہیں کہ ہم جریانی اور جنسی کمزوری کا شکار ہے اور ہم اپنی زندگی ختم کررہے ہیں اور ان کو نیم حکیموں اور کم تعلیم یافتہ ڈاکٹروں سے جو جواب ملتا ہے وہ بھی ایک مزاق سے کم نہیں ہوتا اور وہ نوجوانوں کو مزید مسائل سے دوچار کردیتے ہیں. اس مسئلے کا حل بتاتے ہوئے وہ کہتی ہے کہ جب تک نوجوانوں کو چاہے وہ لڑکی ہو یا لڑکا ان کے جسمانی اور نفسیاتی صحت کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی جائے گی یہ مسائل بڑھتے جائیںنگے.

معراج خان کہتے ہیں کہ جب ہم اسلام آباد ہجرت کرگئے تو میں نے ابو کے ایک تعلیم یافتہ دوست سے چپ کرکے اس حوالے سے بات کی اور ان کو اپنی پریشانی کے بارے میں بتایا اور ان سے قسم لی کہ اس بارے میں ابو سے بات نہیں کرینگے. کچھ دن بعد وہ مجھے نفسیاتی مسائل کے ماہر ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئے اور انھوں نے نہ صرف میری طبعی اور نفسیاتی رہنمائی کی بلکہ مجھ سے پیار بھی کیا اور مجھے کہا کہ آپ کو کوئی بیماری نہیں بس آپ نے اس کو ذہن پر سوار کیا ہے. معراج کہتے ہیں ان کے مشوروں کے بعد میں مکمل نارمل ہوا اور ایک سال بعد میری شادی ہوئی اور میرا ایک بچہ بھی پیدا ہوگیا اور میں جنسی طور پر مکمل صحت مند ہوں اور جب بھی اس وقت کو یاد کرتا ہو تو اپنی نادانی پر قہقہ لگاتا ہوں۔ .

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔