Get Alerts

آئین و قانون کے مطابق عورت مارچ کو نہیں روکا جا سکتا، اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ غیر اخلاقی سلوگن نہ ہوں، عدالت

آئین و قانون کے مطابق عورت مارچ کو نہیں روکا جا سکتا، اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ غیر اخلاقی سلوگن نہ ہوں، عدالت
لاہور ہائیکورٹ نے عورت مارچ کے حوالے سے دائر درخواست کو نمٹاتے ہوئے کہا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق عورت مارچ کو روکا نہیں جا سکتا۔

لاہور ہائیکورٹ میں گذشتہ ماہ 24 فروری کو عورت مارچ کے خلاف جوڈیشل ایکٹیوزم کونسل کے چیئرمین اظہر صدیقی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس مامون الرشید کی سربراہی میں بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران اظہر صدیقی، ان کے ساتھی وکیل اور عورت مارچ کے منتظمین کے وکیل ثاقب جیلانی پیش ہوئے جبکہ سماعت کے دوران پولیس نے عدالتی احکامات پر اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ پولیس عورت مارچ کو فل پروف سیکیورٹی فراہم کرے گی۔

پولیس نے اپنی تحریری رپورٹ میں بتایا کہ پولیس نے مختلف سول سوسائٹی کے ارکان کے اعتراضات سنے اور کسی کو بھی عورت مارچ پر اعتراض نہیں تاہم کچھ افراد کو عورت مارچ کے طریقہ کار پر تحفظات ہیں۔ پولیس نے بتایا کہ عورت مارچ میں استعمال ہونے والے بینرز اور سلوگنز پر سائلین کو اعتراضات ہیں جب کہ حساس علاقے مال روڈ پر کسی بھی طرح کے احتجاج پر مکمل پابندی عائد ہے۔

پولیس نے اپنی تحریری رپورٹ میں عدالت کو آگاہ کیا کہ پولیس عورت مارچ کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کرے گی۔

سماعت کے دوران خواتین کے وکیل ثاقب جیلانی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ منتظمین یہ گارنٹی دینے کو تیار ہیں کہ قانون و آئین کے برعکس کوئی اقدام نہیں ہو گا۔ ثاقب جیلانی نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کے وکیل نے عورت مارچ کو ریاست مخالف ایجنڈا کہا ہے جو بہت خطرناک الزام ہے جس پر اظہر صدیقی کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انہوں نے عورت مارچ کو رکوانے کی درخواست نہیں کی کیوں کہ خواتین معاشرے کا حسن ہیں تاہم عورت مارچ قانون و آئین کے دائرے میں رہ کر ہونا چاہیے۔

اظہر صدیقی کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ دنیا میں یہ تاثر ہے کہ پاکستان میں خواتین کو دبا کہ رکھا جاتا ہے اور مارچ میں میرا جسم میری مرضی کی باتیں ہوتی ہیں۔ وکیلوں کے دلائل سننے پر عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عورت مارچ کے آرگنائزرز کی ذمہ داری ہے کہ غیر اخلاقی سلوگن نہیں ہونے چاہیے کیوں کہ غیر اخلاقی سلوگن اچھی بات نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ درخواستگزار کو بھی عورت مارچ کے انعقاد پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور منتظمین و شرکا کو آئین و قانون کے اندر رہ کر عورت مارچ کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ غیر اخلاقی سلوگن نہ ہوں۔