کیا شہروں پر غریبوں کا کوئی حق نہیں؟

کیا شہروں پر غریبوں کا کوئی حق نہیں؟
 

1960 کی دہائی میں باقاعدہ' منصوبہ بندی کے تحت’  ایک شہر ' اسلام آباد'  پاکستان کے دارالحکومت کے طور پر تعمیر ہوا۔ 60 سال بعد جب آج ہم اس شہر کو دیکھتے ہیں جسکا ماسٹر پلان معروف آرکیٹیکٹ اور ٹاؤن پلانر " ڈوکسیاڈز" نے بنایا تھا تو آج  ہمیں اسی منصوبہ بند شہر میں ایک "غیر منصوبہ بند اسلام آباد"  بھی نظر آتاہے۔ ایک ایسا شہر جس میں کچی آبادیاں کثیر تعداد  میں ہیں، یہ ان  غیر متوقع چیلنجز کی  نشاندہی کرتا ہے جن کا سامنا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ جیسے رہائش کی عدم دستیابی۔ 

 

اگر ہم غیر منصوبہ بند اسلام آباد کے آغاز کی بات کریں تو یہ آغاز تب ہوا تھا جب سرکاری منصوبہ بندی میں شہر کے 'مزدورطبقے' کو  غیر اہم قرار دیتے ہوئے پسماندگی میں ڈال دیا گیا۔  اور بطور شہری اسکے ' شہر پر حق' کو تسلیم نہ کیا گیا- نتیجتا شہر کی منصوبہ بندی  میں کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے بااثر اور فعال کردار کے باوجود   اسلام آباد میں  کچی آبادیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔  اور 2014 میں 24 کچی بستیوں میں بسنے والے افراد کی تعداد 80ہزار سے زائد ہوگئی تھی ۔ اس وقت اسلام آباد میں 50 سے زیادہ غیر رسمی بستیاں ہیں۔

 

رہائش کی فراہمی،ریاست کی زمہ داری

کچی آبادیوں یا غیر رسمی بستیوں کے ساتھ جو پہلا تصور جوڑا جاتا ہے وہ یہ کہ وہ غیر قانونی ہیں اور جرائم سے جڑے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے طعنوں اور بے حسی کی بجائے ،وہ اس اعتراف کے مستحق ہیں کہ انہیں بھی پاکستان کے کسی شہری کی طرح' رہائش کا  حق 'حاصل ہے۔ جو ریاست کی زمہ داری ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 38 جو " لوگوں کی معاشرتی اور معاشی بہبود کو فروغ دینے " سے متعلق ہے اسکی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے کہ جنس ، ذات ، رنگ یا نسل سے قطع نظر ان تمام شہریوں کے لئے جو کسی عارضہ ، بیماری یا بے روزگاری کی وجہ سے مستقل طور پر یا عارضی طور پر اپنا روزگار کمانے سے قاصر ہیں ۔بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی ، جیسے کھانا ، لباس، رہائش ، تعلیم اور طبی امداد  ریاست کی زمہ داری ہے۔

رہائش کی کمی اور کچی آبادیاں

اعدادوشمار کے مطابق  پاکستان میں رہائش کی سالانہ طلب   350،000 یونٹ ہے ، جبکہ رسد محض  ،150،000یونٹ کی تعمیر  ہے۔ مکانات کی طلب اور رسد میں یہ تضاد اب کئی دہائیوں سے موجود ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ملک میں  مہنگے انداز کی رہائش اور اپارٹمنٹس کی تعمیر پورے زوروشور سے جاری ہے۔ جبکہ دوسری طرف  حکام نے  کم آمدنی والے شہریوں کے لئے سستی رہائش کی ضرورت کو مسلسل نظرانداز کیا جس نے ان  طبقات کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ یوں کچی آبادیوں یا غیر رسمی بستیوں کی تعمیر میں تیزی سے اضافہ ہوا کیونکہ چھت انسان کی بنیادی ضرورت ہے-

اس وقت پاکستان میں تقریبا  34 ملین افراد کچی آبادیوں یا غیر رسمی بستیوں میں رہتے ہیں جہاں بنیادی ضروریات و سہولیات کے ساتھ  پانی کی کمی ہے۔دنیا کے دیگر مما لک کی طرح کورونا  جیسے وبائی مرض کے دوران پاکستان کی غیر رسمی بستیوں میں بسنے والے 34 ملین افراد کے لئے معاشرتی دوری اور ہاتھ دھونا ایک اہم مسئلہ ہے۔

لاک ڈاؤن اور ہنگامی صورتحال کے باوجود مسماری و جبری بے دخلی

 

غیر رسمی بستیاں ' اسلام آباد' کے لئے نئی نہیں ہیں اور نہ ہی انخلاءو بے دخلی نئی بات ہے مگران حالات میں کہ  جب حکومت نے کوویڈ 19 وبائی مرض کی وجہ سے لاک ڈاؤن اور ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا ہوا ہے اور  لوگوں سے گھروں میں رہنے ، سماجی فاصلہ رکھنے کی درخواست کی ہے۔ مگر کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے اسلام آباد سیکٹر جی۔ 11/4 میں 120 جھگیوں کی آبادی پر بلڈوزرزکے ساتھ حملہ کیا  اور 16 اپریل کے دن 75 جھگیاں کھنڈرات میں تبدیل کرکے 75 خاندانوں کو رہائش سے محروم کردیا-

سپریم کورٹ کاحکم امتناعی

سوال یہ ہے کہ کورونا وائرس جیسے وبائی مرض کے دوران  بے دخل کیے گئے  لوگ کہاں جائیں گے؟  جبکہ اسلام آباد میں بستیوں اور کچی آبادیوں کے لئے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی موجود ہے۔اس لحاظ سے جب تک متبادل رہائش فراہم نہیں کی جاتی اس وقت تک سی ڈی اے کی یہ مسماریاں' غیر قانونی' ہیں کیو نکہ رہائش بنیادی حق ہےاور ریاست کی زمہ داری ہے کہ رہائشی بحران کے شکار کم آمدنی والے غریب  طبقے کو رہائش فراہم کرے- سی ڈی اے حکام کا کہنا تھا کہ انہیں جھگیوں کو مسمارکرنے کے احکامات موصول ہوئے ہیں جبکہ انہوں نے آرڈر کی  کاپی نہیں دکھائی ۔

 سول سوسائٹی کا ردعمل

اس خبرنے ایک بار پھر تحریک انصاف حکومت کے ساتھ ساتھ حکام بالا پر تنقید کے دروازے کھول دیئے۔مختلف سماجی رہنماؤں،محققین اور سول سوسائٹی  نے کہا کہ  "عمران خان کی ' غریب پرورحکومت' میں   اسلام آباد کی کچی آبادی میں مسماری و جبری بے دخلی قابل مذمت  ہے  وبائی مرض کے بیچ میں گھروں کو بلڈوز کیا گیااور غریب ترین  مزدور بے گھر ہوگئے" ۔کچھ افراد نے اس بے دخلی و مسماری کو کوعمران خان کی تعمیراتی صنعت میں دلچسپی اور انکے   بلڈر دوستوں کو اس خالی زمین سے ہونے والے منافع سےبھی سے مربوط کیا - ‘کیونکہ تعمیراتی صنعت کو کھولا جارہاہے  ، رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری  کرنے والوں کو استثنیٰ دیا جارہا ہے – تو  مستقبل کے منصوبوں کے لئے خالی ' زمین ' کا ہونا بھی  بہت ضروری ہے- یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ بنی گالہ کی غیر قانونی تعمیرات کی طرح ، کیا غیر رسمی بستیوں کو بھی لیزنہیں کیا جاسکتا ؟

عوامی ورکرز پارٹی اسلام آباد نے اس واقعے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان ' دیہاڑی دار مزدوروں کی مشکلات ،انکی حالت زار کے بارے میں بات کرتے ہیں اور  انکی حکومت اسلام آباد  میں دیہاڑی دار مزدوروں کے مکانات مسمار کررہی ہے۔

حکومتی اداروں کاوحشیانہ رویہ،متاثرین کی زبانی

ایک بیوہ متاثرہ رہائشی کا کہنا ہے کہ اگر وہ کچھ نہیں دے سکتے ہیں تو  ہمیں ذلیل نہ کریں ، انہوں نے ہمیں تھپڑ مارےاور ہمارے گھروں کو بلڈوز کردیا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے  ہمارے پاس نہ کوئی کام ہے اور نہ ہی کھانے کو کچھ ہے۔ ایک اور رہائشی خاتون کی مطابق ، انہوں نے ہمارا سامان بلکہ پانی تک  نالے میں گرا دیا  اس سے  بہتر تھا کہ وہ ہمیں زہر دے کر مار ڈالتے-رہائشیوں نے حکام سے التجا کی کہ ان کے گھروں کو نہ توڑا جائے  لیکن انہوں نے کوئی رحم نہیں کیا۔ ایک مزدور ستار  کے مطابق ،  انہوں نے سی ڈی اے اور پولیس سے درخواست کی کہ  انکے گھروںکو نہ توڑیں  گھر ٹوٹ گئے تو وہ اور   انکے بچے کہاں جائیں گے؟ لیکن انہوں نے کسی کی نہ سنی بلکہ الٹا انہیں مارا پیٹا۔

وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کا ردعمل

وزیر انسانی حقوق ، شیریں مزاری نے اس واقعے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے  اسے' بالکل نا قابل قبول' قرار دیا  اور فوری تحقیقات کا حکم دیا کہ منظوری و اجازت کے بغیر سی ڈی اے نے یہ کارروائی کیوں کی ؟انہوں نے مزید کہا ، " ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کی جائے"۔

افسر شاہی اور شہر پر حق

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے کہا "کہ  واقعے کی انکوائری شروع کرتے ہوئے  متعلقہ اہلکاروں کو معطل کردیا گیاہے۔ لیکن ساتھ انہوں نے کہا ، یہ پیشہ ور بھکاریوں کا گروہ تھا جب کہ انکوائری سے حقائق معلوم ہوں گے"۔ افسر شاہی کی زبان یہ ظاہر کرتی  کہ اگر وہ بھکاری ہیں تو ان کا' شہر پر حق ' نہیں ہے۔جبکہ اس علاقے میں اوپن ایئر اسکول چلانے والی ٹیچر توحید سہیل کے مطابق  اس آبادی کے رہائشی' محنت مزدوری' کرنے والے ہیں-

اسلام آباد میں 75گھرانوں کے 450 سے زائد  غریب ترین افراد کے پاس اب کوئی پناہ نہیں ہےانکے گھر تباہ کر دئے گئے اور کوئی بھی اس وحشیانہ واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کررہا- غریب ترین شہریوں کے گھروں کو وبائی مرض اور لاک ڈاؤن کے درمیان دوبارہ آبادکاری کے منصوبے کے بغیر  مسمار کرنے کا حکم کیوں اور کس نے دیا؟ جبکہ یہ افراد غربت کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات سے دوچار ہیں۔

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے