ڈاکٹر واہلہ نے اپنے انٹرویو میں ذرائع کا تذکرہ کئے بغیر کہا کہ یہ بات سچ ہے کہ ستمبر 1992 میں ایک بہت بڑا انقلاب پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ کچھ لوگ غلام اسحاق اور نواز شریف کی چھٹی کر کے ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت لانا چاہتے تھے۔ یہ فارمولا اس حد تک طے ہو چکا تھا کہ آئی ایم ایف کے ایک اعلیٰ عہدیدار کو وزیر اعظم بننے کے لئے تیار کر لیا گیا تھا، اس نے شیروانی بھی سلوا لی تھی جبکہ وزیر خزانہ کہ عہدے کے لئے شاہد جاوید برکی تیار بیٹھے تھے اور وزیر اطلاعات بننے کی پیش کش ڈاکٹر واہلہ کو کی گئی ۔واہلہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس خونی کھیل میں شامل ہونے سے منع کر دیا کیونکہ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ اقتدار کے بعد فوراً پاکستان میں پانچ سو کے قریب اہم لوگوں کو گولی سے اڑا دیا جائے گا
بعدازاں ناجائز طریقوں سے دولت کمانے والوں کو ٹارچر سیل میں بند کیا جائے گا اور کالا دھن وصول کیا جائے گا۔ گو کہ یہ منصوبہ بڑا آئیڈیل انقلاب تھا لیکن میں اس کشت و خون میں نہیں پڑنا چاہتا تھا تاہم میں نے اس منصوبے کو صیغہ راز میں رکھنے کا وعدہ کیا کیونکہ اس کے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ نہ تھا وگرنہ پانچ سو مقتولین میں ایک نام میرا بھی ہوتا۔