Get Alerts

سپریم کورٹ کو بلاوجہ نامکمل رکھنا غیر آئینی ہے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سپریم کورٹ کو بلاوجہ نامکمل رکھنا غیر آئینی ہے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جوڈیشل کمیشن کو خط لکھ کر  سپریم کورٹ کے ججز کی خالی آسامیوں پر تقرریوں کے لیے جسٹس احمد علی شیخ اور جسٹس مسرت ہلالی کے نام  تجویز کر دیے۔

خط لکھا جس میں جسٹس احمد علی شیخ اور جسٹس مسرت ہلالی کے نام سپریم کورٹ کے ججز کے طور پر تقرری کے لیے تجویز کیے گئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے 29 اپریل کو چیئرمین جوڈیشل کمیشن اور دیگر ارکان کے نام لکھے گئے خط کے متن میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں 13 جولائی اور 13 اگست 2022 سے 2 ججز کی آسامیاں خالی ہیں۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس سجاد علی شاہ کو ریٹائر ہوئے 19 ماہ گزر چکے ہیں۔

سپریم کورٹ میں اس وقت 17 ججوں کی طےشدہ تعداد کے برخلاف چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال سمیت 15 جج امور سرانجام دے رہے ہیں۔

خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست کی ہے کہ آسامیوں کو فوری طور پر پُر کیا جائے اور جن ججوں کو نامزد کیا جائے گا ان کے نام سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت سے پہلے تجویز کیے جائیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں کہا کہ آئین کہتا ہے کہ چیف جسٹس اور دیگر ججز سپریم کورٹ ہیں۔ اگر سپریم کورٹ کو بلاوجہ نامکمل رکھا جائے تو یہ قانون کے مطابق نہیں۔ اس وقت سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد تقریبا 53 ہزار ہے۔ آج سے 9 سال پہلے زیر التوا مقدمات کی تعداد آج سے آدھی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں زیر التوا مقدمات سے سائلین کے مفاد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ خالی 2 آسامیوں پر موسم گرما کی تعطیلات سے پہلے تقرریاں کی جائیں۔ تعطیلات سے پہلے جوڈیشل کمیشن کے تمام ارکان موجود ہوں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے میں 2 ججز کے نام تجویز کرتا ہوں۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ احمد علی شیخ اور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ مسرت ہلالی کے نام تجویز کرتا ہوں۔

خط میں کہا گیا کہ لوگوں میں مایوسی پیدا ہوگی اگر سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو سپریم کورٹ نہ لایا گیا۔ خیبر پختونخوا کے لوگوں کا شکوہ ہے کہ ان کا سپریم کورٹ میں صرف ایک جج ہے۔ آئین پاکستان مساوات کا درس دیتا ہے اور امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ آئین جگہ پیدائش، رہائش، جنس اور نسلی امتیاز سے منع کرتا ہے۔ چیف جسٹس سے استدعا ہے کہ جلد جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلایا جائے۔