ذہنی تناؤ معیاری صحافت کی راہ میں حائل بنیادی رکاوٹ

ذہنی تناؤ معیاری صحافت کی راہ میں حائل بنیادی رکاوٹ
عمومی طور پر یہ بنیادی اور اہم صحافتی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے کہ صحافی عوام کو باخبر رکھنے کے لئے اپنے گرد و پیش کے حالات واقعات سے رپورٹ کریں لیکن اس سب کے دوران وہ کن پریشانیوں سے دوچار ہوتے ہیں اس کا ذکر اہم نہیں سمجھا جاتا ہے۔ جب ایک صحافی اپنے کام کے حوالے سے درپیش مشکلات کے باعث تناؤ کا شکار ہو اسے پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کا نام دیا جاتا ہے۔ عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق اس تناؤ کا شکار عمومی طور پر صحافی ہوتے ہیں جس کے باعث وہ کمزوری، ناامیدی، بے چینی، ذہنی دباؤ اور اداسی کا شکار ہوتے ہیں۔

پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر اور صحافت کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے جس کو اس طرح سے تحقیق کے نتائج سے سمجھا جاسکتا ہے کہ 2001 سے لیکر 2014 کے درمیان ہونے والی 24 مختلف تحقیقات میں زیر تحقیق صحافیوں میں سے 80 فیصد سے زائد صحافی قتل، تباہی، جنگ اور اجتماعی اموات کی رپورٹنگ کے باعث پی ایس ٹی ڈی شکار ہوتے ہیں اور انہیں خوشی غمی کا احساس نہیں ہوتا ہے ۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صحافیوں کو اس نوعیت کے مسائل کا سامنا سیاست کی رپورٹنگ کرتے ہوئے کرنا پڑتا ہے جس کی مثال 22 اپریل 2022 کو مینار پاکستان لاہور پر پاکستان تحریک انصاف کے جلسے کی ہے جہاں 92 نیوز کے رپورٹر خاور مغل کو مبینہ طور پر سیاسی جماعت کے کارکنان نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ رپورٹر کو 92 نیوز کی جانب سے پی ٹی آئی کے خلاف مواد نشر کرنے کے باعث تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ خواتین صحافیوں کو سیاسی سرگرمیوں کی کوریج کے باعث آن لائن ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اس حوالے سے خاور مغل بتاتے ہیں کہ انہیں جلسے میں سیاسی جماعت کے کارکنان نے تشدد کا نشانہ بنایا جس پر انہوں نے اپنے تئیں اچھی خاصی کوشش کے بعد ایف آئی آر بھی درج کروائی لیکن ہجوم ہونے کے باعث اصل مجرموں کا تعین کرنا بھی مشکل تھا اور یہ معاملہ بلاآخر جماعت کے نمائندگان کے ساتھ صلح کے بعد ختم ہوگیا۔ اس واقعے کے بعد وہ جس ذہنی تناؤ کا شکار ہوئے ہیں اسکی بنیاد پر اب وہ احتیاط کرتے ہیں کسی بھی ہجوم کے اندر گھسنے سے اور سوشل میڈیا پر ذاتی مشاہدات اور تجزیات کی تشہیر سے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان پر اپنے خاندان کی پرورش کی ذمہ داری ہے اور وہ مزید الجھاؤ کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ جبکہ ان کے ہم عصر اور ہم پیشہ افراد کا حوصلہ بھی خاصا مجروح ہوا ہے جس کے باعث اب وہ سب کسی بھی جلسے کی کوریج کے دوران اکٹھے رہتے ہیں تاکہ انہیں تحفظ کا احساس ہو اور وہ اپنا کام باآسانی کرسکیں۔

خانیوال کے دیہی علاقے نواں شہر سے روزنامہ دنیا نیوز کے نامہ نگار محمد عاصم نے رواں سال ستمبر میں اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ایک خبر کے حوالے سے غیر سرکاری ویٹرنری ڈاکٹر سے انکا موقف لینے کے لئے کال کی۔ان کے مطابق ان کے اس عمل کو مذکورہ ڈاکٹر نے انا کا مسئلہ بنالیا اور انکے خلاف ڈرگ انسپکٹر کو درخواست دے دی اور اس کے بعد ڈپٹی کمشنر خانیوال کے پاس بھی پیش ہوئے اور جب ان سے کچھ نہیں بن پایا تو انہیں بذریعہ واٹس ایپ دھمکی آمیز وائس نوٹ بھجوانے شروع کردیئے۔

اس صورتحال کا احاطہ کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ دیہی یا پسماندہ علاقوں میں جاگیرداروں یا محکموں میں موجود نااہل لوگوں کے حوالے سے رپورٹنگ کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ صحافتی ذمہ داری کو نبھائیں تو جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال مین نیند بھی اڑ جاتی ہے اور طبیعت گراں ہونے باعث کام کرنے کو بھی دل نہیں کرتا ہے۔  ہم میں موجود مایوسی قریبی دوستوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہے اور ایسے لوگوں سے گریزاں ہوکر وہ اپنے کام کے معیار میں ازخود کمی لے آتے ہیں اور بالاآخر ایسے لوگوں سے صلح کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

خانیوال یونین آف جرنسلٹ کے سابق صدر و سماء نیوز کے ڈسٹرکٹ رپورٹر راؤ سلیمان بتاتے ہیں کہ تمام صحافی اپنی ذمہ داری کے ساتھ جڑے ہوئے خطرات سے بھی آگاہ ہیں لیکن معاشی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانے کے لئے اس پرخطر کام کو کئے جارہے ہیں۔ جبکہ صحافیوں کو ذہنی تناؤ کی وجہ صرف تشدد ہی نہیں بلکہ مالی وسائل کی کمی اور انصاف میں تاخیر بھی بنیادی وجوہات ہیں جس کے باعث وہ اپنی ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کر نہیں پاتے اور یہ چیزیں ان کے لئے ذہنی تناؤ کا سبب بنی رہتی ہیں۔ ان کے مطابق تقریباً ہر صحافی اس ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔ چونکہ یہ مسائل ہمارے معاشرتی رویے کا حصہ بن چکے ہیں اس لئے ان کو یکسر ختم کرنا بہت مشکل ہے۔ اس معاملے کو لیکر صحافتی ادارے، پریس کلبز اور تعلیمی ادارے کسی حد تک کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔

صدر ڈسٹرکٹ پریس کلب خانیوال فرحان قیوم بتاتے ہیں کہ پریس کلب ایسے صحافیوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرتا ہے جنہیں اپنے کام کے باعث کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہو۔ جس کی مثال انہوں 4 ستمبر 2022 کو پولیس اسٹیشن مخدومپور، ضلع خانیوال میں ہونے والی ایف آئی آر 22/265 کی دی جس میں محکمہ صحت کے ملازم ڈاکٹر نے مقامی صحافیوں پر مبینہ تشدد کی ایف آئی آر کروائی۔ اس ایف آئی آر میں دو صحافیوں رانا ساجد اور حافظ صابر نواز کو بھی نامزد کیا جو اس دن شہر میں ہی موجود نہیں تھے۔ اس حوالے سے پی ایم اے جنوبی پنجاب کے صدر ڈاکٹر مسعود الرؤف کو بھی مدعو کیا گیا اور مل کر میرٹ پر تفتیش کروائی گئی اور یہ ثبوت فراہم کئے گئے کہ مذکورہ صحافی اس موقعے پر موجود نہیں تھے۔ اس واقعے کے بعد جہاں پر مذکورہ صحافی مایوس دکھائی دے رہے تھے انکا حوصلہ بڑھا اور ساتھ انہیں یہ باور کروایا گیا کہ وہ میرٹ پر کام جاری رکھیں۔

سنٹر آف ایکسلینس ان جرنلزم آئی بی اے کی جانب سے صحافیوں کو ذہنی تناؤ پر قابو پانے کے حوالے سے 2018 سے 2021 کے دوران 107 صحافیوں کو خدمات فراہم کی جاچکی ہیں اسی حوالے سے ادارے کی رپورٹ میں یہ تجاویز پیش کی گئی ہیں ذہنی تناؤ کو سمجھنے اور اس پر قابو پانے کے حوالے سے مختلف معلومات و تکنیک کو رسمی تعلیم کا حصہ بنایا جائے، متعلقہ اداروں اور موجودہ صحافیوں کی بہتری کے لئے زیادہ سے زیادہ سیمینار کا انعقاد کروایا جائے، ادارے کی انتظامیہ اور صحافیوں کے مابین اعتماد کی فضاء قائم کرتے ہوئے انہیں ریلیف دلوایا جائے، ذہنی تناؤ کے حوالے سے عوامی آگاہی پر مبنی سٹوریز کروائی جائیں اور ذہنی تناؤ کے شکار ملازمین کو ادارے کی جانب سے ہر ممکن امداد فراہم کی جائے تاکہ وہ کچھ عرصہ آرام کرنے کے بعد اپنے کام پر بااعتماد طریقے سے لوٹ سکیں۔

ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال خانیوال کے ماہر نفسیات محمد عدنان خان بتاتے ہیں کہ 2013 میں امریکن سائکیٹرسٹس ایسوسی ایشن نے پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کی تعریف میں صحافیوں کے کام کو مدنظر رکھتے ہوئے اور پریشان کن مواد کی بالواسطہ نمائش کے باعث پیش آنے والی پریشانیوں کو شامل کیا۔ ان کا کہنا ہے صحافی چونکہ ان اولین لوگوں میں شامل ہوتے ہیں جو اس نوعیت کے واقعات و حادثات کو رپورٹ کرتے ہیں انہیں فرسٹ ریسپانڈینٹ تصور کیا جاتا ہے جس کے باعث وہ کچھ عرصے کے بعد اس ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ فوری طور ایسے صورتحال کے شکار افراد پی ٹی ایس ڈی نہیں بلکہ ایکیوٹ سٹریس ڈس آرڈر کے شکار ہوتے ہیں۔ یہاں پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ حساس طبیعت کے مالک صحافی یا عام افراد اگر اپنے کام کو پسند نہیں کرتے اور باامر مجبوری جب انہیں وہی کام کرنا پڑا یا وہ ایکیوٹ سٹریس ڈس آرڈر کے شکار افراد سے ملیں تو بھی وہ پی ٹی ایس ڈی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اس تناؤ کا شکار ہوتے ہوئے کہ مریض کو خواب میں ایسی صورتحال دیکھائی دیتی ہے اور تناؤ رہتا ہے جس کے باعث وہ ان کاموں کو نظرانداز کرنے کی کوشش کرتا ہے اور خود کو اسکا ذمہ دار ٹھہرانے لگتا ہے یا دوسروں پر غصہ نکالتا ہے اور نیند نہ آنے کی شکایت کرتا ہے۔ اس مسئلے کا حل اپنے مسئلے کو تسلیم کرنا، باقاعدگی سے ماہر نفسیات سے سیشن لینا، مثبت سرگرمیوں کو زندگی کا حصہ بنانا، روٹین میں تبدیلی لانا، اپنے تجربات دوسروں کو بتانا اور تندرست ہونے والے متاثرین کے تجربات سے فائدہ اٹھانے سے ممکن ہے۔ جبکہ ذہنی تناؤ منفی چیزوں (شراب و سگریٹ نوشی یا نشے کا استعمال) کی مدد سے مسائل پر قابو پانا ذہنی تناؤ کو مزید بڑھاوا دیتا ہے۔

میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی شریک بانی صدف خان بتاتی ہیں کہ ان کا ادارہ گزشتہ اڑھائی سال سے دستگیر ہیلپ لائن کے فورم سے صحافیوں کو ایک ایپلیکیشن "صحت کہانی" کے ذریعے ڈاکٹرز کے ساتھ آن لائن جوڑتے ہوئے طبی مشورے فراہم کر رہا ہے جس میں نفسیاتی علاج معالجہ سرفہرست ہے۔ اسی تجربے کی بنیاد پر وہ سجھتی ہیں کہ صحافیوں کو از خود اپنے ذہنی تناؤ کو سنجیدہ لینا چاہئے اور اس کا علاج کروانا چاہئے۔ لیکن ان کے تجزیے کے مطابق صحافیوں نے اس ایپلیکیشن سے وہ افادیت حاصل نہیں کی جو کرنی چاہئے تھی۔

ایڈووکیٹ ہائیکورٹ نگہت کیانی بتاتی ہیں کہ صحافیوں کے ساتھ پیش آنے والے تشدد اور آن لائن ہراسانی کے وااقعات کے لئے پاکستان پینل کوڈ اور کوڈ آف کریمنل پروسیجر کی دفعات موجود ہیں جن کے تحت ملزمان سے تقتیش کرنے کے بعد ان پر فرد جرم عائد ہوتی ہے اور قانون جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے سزا دیتا ہے۔ چونکہ صحافیوں کو آن لائن ہراسانی یا نفرت انگیزی کا سامنا ہوتا ہے، یا انہیں نامعلوم افراد کی جانب سے کسی مجمعے یا ویرانے میں تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے جہاں پر جرم کے مرتکب فرد یا افراد کا تعین مشکل ہوجاتا ہے۔ اور ایک قانونی عمل سے گزرتے ہوئے فوری انصاف نہیں مل پاتا جو مجموعی طور پر متاثرہ شخص یا اس کے قریبی لوگوں کے ذہنوں پر منفی اثر ڈالتا ہے جس سے انکے کام کے معیار میں فرق آجاتا ہے۔

مقامی سماجی ورکر اسماء واسطی بتاتی ہیں کہ پاکستان میں ذہنی تناؤ سے چھٹکارا پانے کے حوالے سے تربیتی سیشنز پر مبنی کام پاکستان میں بہت معدوم ہے۔ یہاں پر معیاری کام کرنے پر اداروں کی مداخلت اور غیر جمہوری قوتوں کے دباؤ سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ کام کے دوران اداروں کی ہی جانب سے ڈیڈ لائن اور کام کے طویل اوقات کار بھی قابل ذکر مسائل ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان مسائل کو صحافتی کام میں درپیش عمومی مشکلات تصور کرتے ہوئے انہیں حل کرنے کے لئے کوئی بھی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا جاتا ہے۔

پی ٹی ایس ڈی اور صحافیوں کو لیکر سبھی مذکورہ افراد اس امر پر متفق تھے کہ کچھ اقدام کی اشد ضرورت ہے جس میں پہلی ذمہ داری اداروں کی ہے اپنے ملازمین کو ان ہاوس کونسلرز فراہم کریں جو ان کے ذہنی تناؤ کو کم کریں، جبکہ ریاستی ذمہ داری یہ ہے صحافیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کی میرٹ پر تفتیش ہو، بروقت کاروائی کی جائے، ذمہ داران کو سزا دلوائی جائے، اور ملک میں پبلک ڈیبیٹ اور اظہار رائے کی آزادی کو فروغ دیا جائے تاکہ اداروں اور عوام میں تنقید برداشت کرنے کو فروغ حاصل ہو۔ جبکہ صحافیوں کو اپنے ذہنی تناؤ کو سنجیدہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح ڈاکٹرز کمیونٹی کو بھی اس امر کو زیر غور لانے کی ضرورت کہ اگر کوئی شخص جسمانی طور پر ٹھیک ہے تو اسے ماہر نفسیات تجویز کیا جائے تاکہ وہ بروقت ذہنی مسائل سے چھٹکارا پاسکے۔

فیصل سلیم میڈیا سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور مختلف نیوز ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں سماجی مسائل اور دلچسپ حقائق شامل ہیں۔