ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے کے بعد پاکستان مسلسل سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا اور جمہوریت کبھی مستحکم نہیں رہ سکی۔ سیاسی عدم استحکام میں اگر ایک طرف قومی اسٹیبلیشمنٹ اور فوجی ڈکٹیٹروں نے کردار ادا کیا تو دوسری جانب سیاسی پارٹیوں کا کردار بھی شامل رہا جنھوں نے عوام میں جڑیں مضبوط بنانے کی بجائے گیٹ نمبر چار سے وزیر اعظم بننے کی پرچی حاصل کی۔
ملک کی تہتر سالہ تاریخ مارشلاؤں ، سیاسی حادثوں اور کئی تلخ تجربات پر مبنی ہے ۔ ملک کی جمہوری سفر پر کبھی شب خون مارا گیا تو کبھی جمہوریت کو اسلام کے خلاف قرار دیا گیا تو کبھی جمہوریت کو کچھ خاندانوں کا جاگیر قرار دیا گیا مطلب سیاست اور سیاست سے جڑے ہر عنصر کو اتنا گندہ کیا گیا کہ اب ملک کے کمرشل اشتہاروں میں بھی سیاست کو "ڈرٹی گیم" کی اصطلاح سے تشبیح دی جاتی ہے۔ سیاست اور جمہوریت کو بے توقیر کرنے کے لئے کبھی مارکیٹ میں "پارلیمنٹ سے بازار حسن تک"نامی کتابیں اور اس کی تشہیر کی جاتی ہے تو کبھی گمنام لکھاریوں اور مصنفوں سے پارلیمنٹ کی بے توقیری کرنے کے لئے مضامین لکھے جاتے ہیں تو کبھی سیاست سے جڑے چہروں کے زاتی زندگیوں کو میڈیا میں اچھالا جاتا ہے۔
سیاست اور پارلیمنٹ کو بے توقیر بنانے کے حوالے سے کئی بے بنیاد مفروضے سامنے آتے ہیں جن میں گزشتہ کئی عرصے سے ایک مفروضہ سوشل میڈیا میں گردش کرتا رہتا ہے کہ پورے ملک میں سب سے سستا کھانا صرف پارلیمنٹ میں دستیاب ہوتا ہے جہاں تین روپے کی روٹی اور بیس روپے کی چکن کی پلیٹ دستیاب ہے ۔ نیا دور میڈیا نے اپنے قارئین کو اس حوالے سے درست معلومات پہنچانے کے لئے پارلیمنٹ کے کیفیٹیریا کے مینو کا مارکیٹ ریٹ سے موازنہ کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ کئی سال سے پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی رائے لی ہے۔ پارلیمنٹ کے موجودہ کیفیٹریا کا افتتاح اُس وقت کے چئیرمین سینیٹ فاروق ایچ نائک نے کیا تھا جو شروع میں صرف پارلیمنٹیرین کے لئے دستیاب تھا مگر بعد میں اس کو دیگر لوگوں کے لئے بھی کھول دیا گیا۔
پارلیمنٹ کے کیفیٹیریا کے مینو کے مطابق مکس سبزی کی قیمت 105 روپے، چکن بریانی 180 روپے، دال ماش 110 روپے، چکن کڑاہی 900 روپے، چکن کباب کڑاہی 780 روپے، سلاد 40 روپے ، رائتہ 25 روپے، فریش جوس 205، ملک شیک 145 روپے،منرل واٹر بڑا 75 روپے میں، چھوٹا 40، کولڈ ڈرنک 60 روپے کی، کافی 80 روپے کی، روٹی 12 روپے کی جبکہ چائے 60 روپے میں دستیاب ہے۔
پارلیمنٹ کے اس ریٹ کا موازنہ ہم نے اسلام آباد کے میلوڈی مارکیٹ، کراچی کمپنی اور جناح سپر مارکیٹ سے کیا ہے ۔
اسلام آباد میں واقع کوئٹہ شاندار ریسٹورنٹ ، عباسی ریسٹورنٹ میں یہی کھانا کتنی قیمت میں دستیاب ہے اس کاجائزہ یہاں پیش خدمت ہے۔
کوئٹہ اور عباسی ریسٹورنٹ کے ریٹ کے مطابق مکس سبزی کی قیمت 110 روپے، چکن بریانی کی قیمت 160 روپے، دال ماش کی قیمت 110 روپے، چکن کڑاہی 800 روپے، چکن کباب کڑاہی 700 روپے، سلاد کی قیمت 50 روپے، چائے کی قیمت 50 روپے، کافی 120 روپے کی، منرل واٹر بڑی بوتل کی قیمت 70 روپے ، ملک شیک 150، روٹی 10 روپے کی جبکہ کولڈ ڈرنک کی قیمت بھی 50 روپے ہیں۔
اگر دونوں جگہ کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے کیفیٹیریا کی قیمتیں مارکیٹ سے زیادہ ہیں جبکہ ملک کے مشہور فوڈ پانڈہ ایپ کی قیمتیں پارلیمنٹ اور مارکیٹ ریٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ اس جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں سستا کھانا دستیاب ہونے والے مفروضے میں کوئی جان نہیں۔
پارلیمنٹ کے دوسرے مینو کے مطابق زنگر برگر کی قیمت کیفیٹیریا میں 325 روپے، گرلڈ چکن برگر کی قیمت 395 روپے ، چکن سینڈویچ کی قیمت 180 روپے جبکہ کلب سینڈویش کی قیمت 325 روپے ہے۔
اگر ہم ان ہی قیمتوں کا موازنہ فوڈ پانڈا ایپ سے کیا جائے تو اس وقت فوڈ پانڈا ایپ پر یہ قیمتیں پارلیمنٹ کے کیفیٹیریا کی قیمتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ پارلیمنٹ میں زنگر برگر کی قیمت 325 روپے جبکہ فوڈ پانڈا پر زنگر برگر کی قیمتیں 300 سے لیکر چار سو روپے تک ہے۔ گرلڈ چکن برگر کی قیمت پارلیمنٹ میں 395 جبکہ فوڈ پانڈہ پر 350 روپے سے لیکر 450 تک دستیاب ہے۔پارلیمنٹ میں چکن سینڈویچ کی قیمت 180 روپے جبکہ کلب سینڈویچ کی قیمت 325 روپے ہے جبکہ فوڈ پانڈہ پر چکن سینڈویچ کی قیمت 250 روپے جبکہ کلب سینڈویچ کی قیمت 360 روپے ہیں۔
اس جائزے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے سستے کھانے والے مفروضے میں کوئی سچائی نہیں ہے۔
کیا پارلیمنٹ میں کھانے پر سبسڈی دی جاتی ہے؟
پارلیمنٹ کے موجودہ کیفیٹریا کا افتتاح اُس وقت کے چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائک نے سال 2012 میں کیا تھا اور مختلف وقتوں میں اس کیفٹیریا کا ٹھیکہ مختلف ریسٹورنٹس کے پاس رہا اور موجودہ ٹھیکہ ہیون نامی ریسٹورنٹ کے پاس ہے۔ ڈان نیوز سے وابستہ پارلیمنٹ کے سینئر صحافی اور پارلیمنٹ کیفیٹیریا کی کمیٹی کے ممبر نادر گرمانی اس مفروضے کو بے بنیاد سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ نادر گرمانی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ جب فاروق ایچ نائک نے اس کیفے کا افتتاح کیا تو یہ صرف ممبران کے لئے محدود تھا مگر بعد میں اس کو دیگر لوگوں کے لئے بھی کھول دیا گیا۔ پارلیمنٹ کیفیٹریا کے ٹھیکے پر بات کرتے ہوئے نادر گرمانی نے کہا کہ پارلیمنٹ کے کیفے کا ٹھیکہ ہمیشہ سے اچھے ریسٹورنٹس کے پاس رہا اور ایک قانونی طریقہ کار کے مطابق ایک سال کے لئے ٹھیکہ دیا جاتا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ تین یا چار ریسٹورنٹس سے دستاویزات مانگے جاتے ہیں اور پھر جو بھی سب سے معیاری اور مناسب نرخ پر کھانے دینے کا حامی ہوتا ہے اس کو ٹھیکہ دیا جاتا ہے۔ نادر گرمانی نے واضح کیا کہ جس طرف ملک میں مختلف چیزوں پر سبسڈی دی جاتی ہے تو یہ تاثر سوشل میڈیا پر عام ہوا کہ پارلیمنٹ کے کھانے پر بھی سبسڈی دی جاتی ہے مگر اس مفروضے میں کوئی حقیقت نہیں اور پارلیمنٹ میں کھانے پر کبھی سبسڈی نہیں دی گئی ، یہ ایک من گھڑت جھوٹ ہے جس میں کوئی حقیقت نہیں۔
فرح نازکا شمار اسلام آباد کے سینئر صحافیوں میں ہوتا ہے اور گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کرتی آرہی ہیں۔ نیا دور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں تین دہائیوں سے پارلیمنٹ باقاعدگی سے آتی ہوں اور کبھی پارلیمنٹ کے کیفیٹییریا میں کھانا مارکیٹ ریٹ سے سستا دستیاب نہیں رہا اور ریٹ ہمیشہ مارکیٹ سے زیادہ رہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم سے لوگ پوچھتے ہے کہ پارلیمنٹ میں کھانا سب سے سستا ملتا ہے تو ہمارے پاس سوائے ان کی کم علمی پر ہنسے کے علاوہ کوئی جواب نہیں ہوتا۔
پارلیمنٹ میں تین روپے کی روٹی والے مفروضے کے پیچھے کیا بیانیہ ہے؟
گزشتہ کئی عرصے سے پارلیمنٹ میں تین روپے روٹی کا مفروضہ گردش کررہا ہے جسکی بنیاد پر سوشل میڈیا صارفین جمہوریت اور سیاست دانوں پر تنقید اور گالم گلوچ کرتے ہیں مگر اس سوچ کے پیچھے کیا بیانیہ ہے؟ اس پر پارلیمنٹ رپورٹر ایسوسیشن کے ممبر اور گزشتہ بارہ سالوں سے پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی علی شیر سے بات کی۔ علی شیر نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاست اور جمہوریت کو کبھی چلنے نہیں دیا گیا جن کی وجہ سے کئی حادثات رونما ہوئے اور آج بھی وہی چیلینجز درپیش ہے جو سالوں پہلے تھے۔ علی شیر نے بتایا کہ پارلیمنٹ میں تین روپے کی روٹی کے پیچھے وہی سوچ اور عناصر ہیں جو اس ملک میں جمہوریٹ کو چلنے نہیں دیتے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاست، سیاستدان اور جمہوریت کو گالی بنا دیا گیا تاکہ لوگ سیاست اور جمہوریت سے نفرت کریں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس تاثر کے پیچھے اور کیا ہے بس سیاست دانوں کی کردار کشی ہے تاکہ سیاست اور سیاست دانوں کو بے توقیر کیا جائے۔