ٹمبر سمگلنگ کیس میں ملزمان پر جرمانہ عائد، سمگلنگ میں ملوث گدھے بھی بحق سرکار ضبط

ٹمبر سمگلنگ کیس میں ملزمان پر جرمانہ عائد، سمگلنگ میں ملوث گدھے بھی بحق سرکار ضبط
اسسٹنٹ کمشنر- فارسٹ مجسٹریٹ دروش توصیف اللہ کی عدالت نے چترال میں گدھوں کے ذریعے دیار کی قیمتی لکڑی سمگلنگ کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ ملزمان انعام اور عزیر 50, 50 روپیہ جرمانہ عائد جبکہ 3 سلیپران لکڑی اور 2 عدد گدھے بحق سرکار ضبط کر لئے گئے۔

تفصیلات کے مطابق ملزمان کے خلاف دو الگ الگ مقدمات اسسٹنٹ کمشنر- فارسٹ مجسٹریٹ دروش توصیف اللہ کی عدالت میں زیر سماعت تھے جن میں ایک کیس کا فیصلہ آج جاری کردیا گیا ہے۔ ملزمان انعام اللہ اور عزیر نے عدالت کے سامنے اقبال جرم کرتے ہوئے عدالت سے رحم کی اپیل کی اور درخواست کی کہ ملزمان کو قید اور بھاری جرمانے سے بچایا جائے۔ ملزمان نے وعدہ کیا کہ آئندہ جنگل کا کسی قسم کا نقصان نہیں کریں گے۔

اسسٹنٹ کمشنر-فارسٹ مجسٹریٹ دروش کی جانب سے حتمی بحث سننے کے بعد تفصیلی فیصلہ سنایا گیا۔ فیصلہ کے مطابق گدھوں کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کے خاتمے، ان کے حقوق کی حفاظت اور جنگلات کے تحفظ کی خاطر مزکورہ دو گدھے بحق سرکار ضبط کرلئے گئے ہیں اور ان کی نیلامی کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ ملزمان سے برآمد شدہ لکڑی بھی بحق سرکار ضبط کرلی گئی ہیں۔ یہ لکڑی محکمہ جنگلات کو حوالہ کیا جاتا ہے جسے وہ ہر ماہ کے پہلے ہفتے میں نیلام کرتے ہیں۔۔ ملزمان کی غربت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان ہی کی خواہش پر دونوں ملزمان پر 50، 50 روپیہ جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ دیگر 3 ملزمان کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کردیئے گئے ہیں۔

ضلع لوئر چترال کے تحصیل دروش میں دروش گول نامی برساتی نالے میں گدھوں کے ذریعے ٹمبر سمگلنگ کے خلاف اسسٹنٹ کمشنر دروش نے بوقت سحری دو مختلف کاروائیوں میں 5 عدد گدھے اور ان کے ساتھ چھ عدد سلیپران تحویل میں لئے تھے جن کو موقع پر محکمہ فارسٹ کے حوالہ کیا گیا تھا۔ مزکورہ کارروائیوں میں ایک ملزم گرفتار جبکہ 4 موقع سے فرار ہوچکے تھے۔ جب ان گدھوں کو عدالت میں پیش کیا گیا تو اس وقت یہ مقامی میڈیا کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی میڈیا میں بھی یہ خبر شائع ہوئی۔

ملزم انعام کے وکیل اکرام حسین ایڈوکیٹ نے سپرداری کی ایک درخواست میں موقف اختیار کیا  تھا کہ ایک گدھا برنگ خاکی ملزم انعام کی ملکیت ہے اور سرکاری تحویل میں رہنے سے اور مناسب ماحول اور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے اس کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہے جو کہ گدھوں کے بنیادی قانونی حقوق کے خلاف ہے نیز یہ گدھا  بےجا استعمال میں بھی لائے جانے کا خدشہ ہے۔ مزید یہ کہ گدھے کے ساتھ ملزم کے بچوں کا کافی لگاؤ ہے اور ملزم گدھے کو اپنا فیملی ممبر سمجھتا ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ حیاتیاتی تناؤ میں گدھا پاکستان میں ناپید ہونے والے جانوروں میں شمار ہوتا ہے اور سرکار کی تحویل میں اس کو صحت بخش خوراک اور ماحول میسر نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہونے اور جسمانی طور پر کمزور ہونے اور باربرداری کی صلاحیت سے محروم ہونے کا اندیشہ ہے لہذا خاکی رنگ کے گدھے کو ملزم مالک انعام کے حوالہ کیا جائے۔ مزکورہ درخواست نمٹاتے ہوئے عدالت نے محمود آرا مشین کو سپرداری سپرد کردی تھی۔

اہل علاقہ کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر دروش کی مسلسل کاروائیوں کے نتیجے میں دروش گول برساتی نالے کے رہائشیوں نے بیشتر گدھے فروخت کردیئے ہیں کیونکہ ان کا اور کوئی مصرف نہیں تھا اور وہ الٹا مالکان پر بوجھ بن چکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ دروش میں گدھوں کی قیمت خرید میں واضح کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اہل علاقہ کا یہ بھی کہنا  ہے  کہ سمگلنگ میں ملوث گدھوں کے ساتھ شدید موسمی حالات میں انتہائی پرتشدد رویہ اختیار کیا جاتا تھا اور 9 کلومیٹر طویل اس درہ سے بھاری سلیپران یعنی دیار کی قیمتی لکڑیوں کی ترسیل ان گدھوں کے لئے وبال جان بن چکا تھا لیکن اب گدھوں نے سکھ کا سانس لے لیا ہے۔

واضح رہے کہ دوران وقوعہ سمگلنگ میں استعمال ہونے گدھے جسے  ''فیملی ممبر'' کہا گیا برنگ خاکی کے ساتھ دوسرے گدھوں کے برعکس دو سلیپران باندھے گئے تھے۔ چند دن قبل اسسٹنٹ کمشنر دروش فارسٹ مجسٹریٹ نے  سمگلنگ میں استعمال ہونے والے ایک دس ویلر ٹرک کو بھی بحق سرکار ضبط کیا تھا جس کے اندر خصوصی طور پر خفیہ خانے بنائے گئے تھے جو صرف غیر قاونی سمگلنگ میں استعمال ہوتا تھا۔