ہم شاید اپنی ماں سے مختلف عورت دیکھتے ہیں تو گھبرا جاتے ہیں

ہم شاید اپنی ماں سے مختلف عورت دیکھتے ہیں تو گھبرا جاتے ہیں
آپ کو کیا لگتا ہے، اگرعورتوں کو آزادی مل گئی تو وہ ہر راہ چلتے مرد کے ساتھ سونا شروع کر دیں گی؟ وہ اپنی زندگی کا مقصد سیکس کو بنا لیں گی؟ کیا زمانے میں کرنے کو یہی کام رہ گئے ہیں جن کے لئے خواتین آزادی مانگتی پھرتی ہیں؟

اپنے آس پاس نظر دوڑائیں، بلکہ چھوڑیں، اپنے گھر کے اندر دیکھیں۔ جب گھر کا لڑکا گھر دیر سے آتا ہے تو ماں باپ فکرمند تو ضرور ہوتے ہیں لیکن تڑپتے نہیں ہیں۔ گھر کی لڑکی ذرا دیر کر دے تو کلیجے منہ کو آ جاتے ہیں۔ کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ عورت بازار میں چاہے برقعہ پہن کے جائے یا جینز، اس کو لوگوں کی ٹکروں سے خود کو بچا بچا کر کیوں چلنا پڑتا ہے؟ کبھی سوچا؟

بیٹا جب تک پیدا نہ ہو جائے، بچوں پر بچے پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ چاہے عورت اس عمل میں ہلکان ہو جائے۔ کتابیں ہاتھوں سے لے کر مہندیاں مل دی جاتی ہیں لیکن کوئی بات نہیں۔ بیوی کو لیڈی ڈاکٹر کو دکھائیں گے لیکن لڑکی نہیں پڑھائیں گے۔ دشمنوں سے بدلہ لینا ہوگا تو ان کی عورتوں کے جسم کو میدان جنگ بنائیں گے۔ لڑکی محبت سے انکاری ہو جائے گی تو تیزاب ڈال دیں گے۔ فیصلہ مشکل ہو جائے گا تو جرگہ عورتوں کے لین دین کر کے معاملات طے کروا دے گا۔ بچوں کی شادی کا موقعہ آئے گا تو لڑکوں سے ان کی پسند پوچھیں گے، لیکن لڑکی پسند کا اظہار کر دے تو باقی زندگی کردار کو ثابت کرتی پھرے گی۔ بے روزگار اور نکموں کے ساتھ بیٹی کو رخصت کر دیں گے، یہ سوچ کر کہ عورت کے نصیب سے پیسہ آئے گا اور اگر شادی کے بعد بھی معاشی حالات بہتر نo ہوں تو پھر سے لڑکی منحوس۔ لڑکی نوکری کرنے نکلے تو اپنے افسران سے اپنا جسم بچاتی پھرے۔ پڑھنے جائے تو صلاح الدین اسے ٹکر جاتا ہے۔ بس میں سوار ہو جائے تو لوگوں کے بازو اسے چھوئیں، کہیں بیٹھے تو نگاہیں۔

یا شاید ہم لوگ اپنے باپ سے متاثر ہیں، جہاں وہ ہماری ماں پر چیختے ہیں تو پھر ہماری مائیں سہم جاتی ہیں، پھر ایک کونے میں بیٹھ کر روتی ہیں، روتے روتے روٹیاں بھی پکاتی ہیں۔ لیکن باپ کو نہ فرق پڑتا ہے اور نہ فکر ہوتی ہے۔ پھر جب باپ کا جاہ و جلال ٹھنڈا ہوتا ہے تو ماں خوش ہو جاتی ہے کہ چلو کوئی بات نہیں۔

ہم شاید اپنی ماں سے مختلف عورت دیکھتے ہیں تو ہمیں بے چینی ہو جاتی ہے۔ لیکن کیا سب خواتین کے ساتھ ایسا ہوتا ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں۔ کیا ہر مرد ایسا کرتا ہے؟ اس کا جواب بھی نہیں ہی ہے۔ لیکن اس سب کا شکار زیادہ تر کون بنتا ہے؟ اس کا جواب ہے، عورت۔

اگر آپ کو عورت مارچ سے اختلاف ہے تو سو بسم اللہ۔ اختلاف کرنے میں کیا حرج ہے؟ لیکن کیا احتجاج کرنیوالی خواتین کو آپ ٹی وی پر بیٹھ کر کتیا بولیں گے؟ آپ کو زیادہ تکلیف ہے تو آپ اس مارچ میں شرکت نہ کیجیے گا۔ بلکہ آپ ایک کام ضرور کیجیے، آپ مردوں کی یا مخالف سوچ والوں کی ایک مرچ نکالیے اور مکالمہ کیجیے۔ گالیاں کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں بنیں۔

کنور نعیم ایک صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر Kanwar_naeem او فیس بک پر KanwarnaeemPodcasts پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔