آئین پاکستان کی رُو سے اقلیتوں کو مساوی حقوق دینا ریاست کی ذمہ داری ہے جس پر قیام پاکستان کے بعد سب سے زیادہ زور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے دیا تھا لیکن مسیحی کمیونٹی اس بات سے مطمئن نظر نہیں آتی۔ ان کا ہمیشہ سے ایک اعتراض رہا ہے کہ مسیحی کمیونٹی کے لیے قانون سازی مشاورت کے بغیر مسلمان کرتے ہیں جس سے ان گنت مسائل جنم لیتے ہیں کیونکہ قانون سازی میں مسیحی مذہبی رہنماؤں یا کمیونٹی لیڈرز سے مشاورت نہیں کی جاتی۔ مسیحیوں کی شادی رجسٹریشن کا ایشو بھی ایسا ہی ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
کرسچن رائٹس ایکٹیوسٹ و سابق ممبر ضلع کونسل وہاڑی البرٹ پطرس بتاتے ہیں کہ مسیحی کمیونٹی کی شادی رجسٹریشن کے معاملے کو حکومت نے کبھی سنجیدہ نہیں لیا، خاص طور پر 2016 سے پہلے جن افراد کی شادی ہوئی ان کے نکاح رجسٹر کرنے کا لائحہ عمل آج تک مرتب نہیں کیا گیا۔ چونکہ حکومت کی جانب سے درجہ بدرجہ پیدائش و اموات کے اندراج اور 18 سال سے کم عمر افراد کے لیے ب فارم کے حصول کے لیے والد اور والدہ کا نادرا کے ڈیٹا بیس کے مطابق شادی شدہ ہونا ضروری قرار پایا اور میاں بیوی کے شادی شدہ کے سٹیٹس کو نادرا میں اپ ڈیٹ کرنے کے لیے سرکاری نکاح نامہ کی رجسٹریشن ایک ضروری شرط قرار پائی۔
2016 میں صوبائی حکومت پنجاب کی جانب سے مسیحی کمیونٹی کے لیے بھی مسلمانوں کے سرکاری نکاح رجسٹرار کی طرز پر باقاعدہ رجسٹریشن کا آغاز کیا گیا اور چند ایک کڑی شرائط کے ساتھ پنجاب بھر کے چرچز کے پاسٹرز کو رجسٹر کرنے کا فیصلہ کیا گیا جن کے پاس صوبائی وزارت انسانی حقوق و اقلیتی امور کی جانب سے نکاح کا سرکاری ڈیٹا رکھنے کے لیے ایک رجسٹر ہو گا جس پر مسیحی کمیونٹی کے افراد کے نکاح رجسٹر کیے جائیں گے تاکہ انہیں بھی سیکرٹری یونین کونسل کے لیے لوکل گورنمنٹ کے ڈیٹا بیس میں آن لائن رجسٹر کیا جائے اور ان کے نادرا ڈیٹا بیس کو اس کے مطابق اپ ڈیٹ کیا جائے۔ طے پایا کہ اسی رجسٹرڈ نکاح کو ثبوت مانتے ہوئے مسیحی میاں بیوی کو شادی شدہ کے شناختی کارڈ جاری کیے جائیں تاکہ ان کے بچوں کو پیدائش سرٹیفکیٹ اور ب فارم آسانی سے جاری ہو سکیں۔ لیکن اس معاملے میں ان گنت خامیاں مشاہدہ کی گئیں جو آج تک مسیحی کمیونٹی کے لیے درد سر بنی ہوئی ہیں۔
البرٹ پطرس بتاتے ہیں کہ ضلع وہاڑی میں اس وقت مسیحی کمیونٹی کی آبادی 29 ہزار سے زائد ہے جن میں سینکڑوں جوڑے ایسے ہیں جو 2016 سے قبل شادی کے بندھن میں بندھے لیکن ان کی نکاح رجسٹریشن کا کوئی لائحہ عمل حکومت کے پاس نہیں۔ اس سے انہیں اپنے بچوں کو قانونی شناخت دینے، ان کے پیدائش سرٹیفکیٹ حاصل کرنے اور تعلیم جاری رکھنے کے لیے ب فارم حاصل کرنے میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ یہاں تک کہ ایسے واقعات کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے کہ میاں کی وفات کے بعد بیوی کو وراثتی جائیداد نہیں مل پاتی جس سے دیگر پریشانیوں کے ساتھ مالی پریشانیوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔
وہاڑی کے ساتھ ملحقہ ضلع ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی کے نواحی دیہات کے رہائشی پرویز کی شادی 2005 میں مریم سے ہوئی۔ پرویز مزدوری کر کے گزر بسر کرتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے ہاں 2 بیٹیوں اور ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی لیکن چند سال بعد 2014 میں کرنٹ لگنے سے پرویز کی موت واقع ہو گئی۔ ان دونوں کا بطور میاں بیوی شناختی کارڈ نادرا ریکارڈ میں اپ ڈیٹ نہ تھا۔ 2016 میں ہیومن رائٹس کے تحت نکاح رجسٹریشن کا قانون پاس ہوا تو مریم نے بھی اپنے نکاح کی رجسٹریشن کے لیے کوشش شروع کر دی تاکہ ناصرف اسے شوہر کی وراثتی جائیداد سے حصہ مل سکے اور وہ بچوں کی پرورش آسانی سے کر سکے بلکہ بچوں کی پیدائش کا اندراج بھی کروا سکے۔ اس کے لیے انہوں نے متعلقہ پاسٹر سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے نکاح کی رجسٹریشن ممکن نہیں۔ مریم نے نکاح رجسٹریشن کے لیے بہت کوشش کی لیکن قانون میں ان کے نکاح کی رجسٹریشن کا کوئی آپشن موجود نہیں تھا حالانکہ اس کے پاس چرچ کی جانب سے جاری کردہ نکاح کا سرٹیفکیٹ بھی موجود تھا۔
یوں مریم اپنے شوہر کی وراثتی جائیداد سے محروم ہو کر کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئی۔ اسے اپنے شوہر کا ملکیتی گھر چھوڑ کر کرائے کے مکان میں شفٹ ہونا پڑا۔ اس وقت مریم کے بیٹے کی عمر 16 سال ہے لیکن نکاح نامہ رجسٹر نہ ہونے کی وجہ سے اس کا ب فارم نہ بن سکا، اس لیے وہ تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور آج کل ایک مقامی شادی ہال میں ویٹر کے طور پر ملازمت کر کے فیملی کو سپورٹ کر رہا ہے۔ مریم کی بیٹیوں کی عمریں 7 اور 13 سال ہیں اور وہ بھی ب فارم نہ ہونے کی وجہ سے زیور تعلیم سے محروم ہو گئیں اور سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہیں۔
بورے والا سے تعلق رکھنے والے پاسٹر بنیامین بتاتے ہیں کہ انہوں نے 2017 میں ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی وساطت سے انسانی حقوق و اقلیتی امور کی وزارت کو نکاح رجسٹرار بننے کی درخواست گزاری۔ فائل میں میٹرک تعلیم کا ثبوت، 2 سالہ مذہبی تعلیم کا ڈپلومہ، چرچ سے وابستگی کا ثبوت اور دیگر ضروری ڈاکومنٹس شامل کیے گئے۔ ڈپٹی کمشنر سے محکمہ لوکل گورنمنٹ اور پھر وزارت تک فائل پہنچی اور وہ باقاعدہ رجسٹرار بنے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس مشن کی جانب سے جاری کردہ نکاح رجسٹر بھی موجود ہوتا ہے جس کا سرٹیفکیٹ شادی شدہ جوڑے کو بطور ثبوت دیا جاتا ہے لیکن مشن کا شادی سرٹیفکیٹ نہ تو نادرا میں قابل قبول ہے اور نہ ہی لوکل گورنمنٹ میں نکاح رجسٹر کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے صرف وزارت انسانی حقوق و اقلیتی امور کی جانب سے جاری کردہ لائسنس ہولڈر نکاح رجسٹرار کا سرٹیفکیٹ ہی درست تسلیم کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 5 سال کے لیے جاری کردہ رجسٹر کے تحت وہ صرف 17 نکاح ہی رجسٹر کر سکے کیونکہ اس وقت ضلع میں مسیحی کمیونٹی کی آبادی کم تھی اور آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں ہیومن رائٹس کے تحت نکاح رجسٹر کرانے کا رجحان بہت کم تھا۔ اکثر شادی شدہ جوڑے اپنے مقامی چرچ کی جانب سے جاری کردہ نکاح سرٹیفکیٹ کو ہی کافی سمجھتے تھے جس سے انہیں بعد میں خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
2022 میں پاسٹر بنیامین کے نکاح رجسٹرار لائسنس کی مدت پوری ہو گئی۔ انہوں نے لائسنس کے دوبارہ اجراء کی درخواست گزاری جو آج تک قبول نہ ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ضلع بھر میں چند ایک نکاح رجسٹرار ہیں، ان میں سے بھی میرا لائسنس ری نیو نہیں کیا گیا کیونکہ رجسٹریشن کا طریقہ کار انتہائی پیچیدہ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزارت انسانی حقوق و اقلیتی امور کو نکاح رجسٹرار لائسنس جاری کرنے کے حوالے سے شرائط پر نظرثانی کرنی چاہیے اور انہیں نسبتاً آسان بنانا چاہیے تاکہ زیادہ پاسٹرز سرکاری نکاح رجسٹرار بنیں اور کمیونٹی کو نکاح رجسٹریشن میں آسانی ہو۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ کوشش بھی کی گئی تھی کہ چرچ کی جانب سے جاری کردہ شادی سرٹیفکیٹ کو بھی نادرا اور دیگر سرکاری اداروں میں قبول کیا جائے لیکن اس میں کامیابی نہ مل سکی۔
2016 سے پہلے کے شادی شدہ افراد کی رجسٹریشن کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ انہیں شادی کے 30 دن کے اندر نکاح رجسٹر کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں، اس کے بعد سرکاری طور پر نکاح رجسٹر نہیں ہو سکتا یا پھر عدالت کی مدد لینا پڑتی ہے۔
صوبائی وزارت انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب کی ویب سائٹ پر باقاعدہ مسیحی کمیونٹی کے نکاح کے لیے لائسنس ہولڈرز کی لسٹ موجود ہے جس کے مطابق پنجاب بھر سے 146 پاسٹرز رجسٹرار کے طور پر لائسنس ہولڈرز ہیں جن میں ضلع وہاڑی کے 6 رجسٹرار ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جولائی 2024 تک تمام 146 لائسنس ہولڈرز کے لائسنس کی مدت ختم ہو چکی ہے اور اس حساب سے پنجاب بھر میں ایک بھی مسیحی نکاح رجسٹرار موجود نہیں ہے۔ اس حوالے سے تفصیل دریافت کرنے لیے متعلقہ وزارت کو رائٹ تو انفارمیشن کے تحت درخواست گزاری گئی ہے۔
مائنارٹی رائٹس ایکٹیوسٹ رانی برکت ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ویب سائٹ پر موجود معلومات کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو شرائط کڑی ہونے کی وجہ سے کسی بھی رجسٹرار کا لائسنس ری نیو نہیں کیا جا سکا یا پھر لائسنس تو ری نیو کر دیے گئے ہیں لیکن ویب سائٹ پر ان کی لسٹ کو اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا۔ اگر ایسا ہے تو یہ بہت زیادہ غیر سنجیدگی ہے کیونکہ ویب سائٹ قومی و بین الاقوامی سطح پر آسانی سے سرچ کی جا سکتی ہے اور لسٹ کا اپ ڈیٹ نہ ہونا دراصل اقلیتی کمیونٹی سے متعلق حکومت کے غیر سنجیدہ رویے کا اظہار کرتا ہے جو افسوس ناک امر اور آئین پاکستان کے منافی ہے۔
بورے والا سے تعلق رکھنے والے پاسٹر حلیم کا کہنا ہے کہ انہیں ضلع وہاڑی کے پہلے لائسنس یافتہ رجسٹرار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں سب سے پہلے 1997 میں محکمہ اوقاف کی جانب سے نکاح رجسٹر کرنے کا اختیار ملا تھا۔ اس کے بعد مشرف دور میں اس میں خاصی تبدیلیاں کی گئیں۔ 2016 میں جب قانون میں تبدیلیاں کی گئیں تو اس کے بعد بھی وہ سب سے پہلے رجسٹرار بنے۔
پاسٹر حلیم کے مطابق ان کا لائسنس حال ہی میں ری نیو ہوا ہے اور وہ ایک بار پھر اپنی خدمات سرانجام دینے کا آغاز کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک سال میں 70 سے زائد نکاح رجسٹر کر لیتا ہوں لیکن یہ تعداد ضلع میں مسیحی آبادی اور نکاح کی شرح کے لحاظ سے بہت کم ہے۔
پاسٹر حلیم کا کہنا ہے کہ جدید دور میں نکاح رجسٹر کروانے، نادرا میں ڈیٹا اپ ڈیٹ کروانے، پیدائش سرٹیفکیٹ اور ب فارم وغیرہ حاصل کرنے کے بارے میں عوام میں شعور بڑھا ہے لیکن مسیحی کمیونٹی میں اس کی آگاہی کا تاحال فقدان ہے کیونکہ اب بھی زیادہ تر لوگ ہیومن رائٹس کے بجائے مشن کا نکاح سرٹیفکیٹ لے کر اسے پیٹی میں سنبھال کر رکھ دیتے ہیں اور جب بچوں کے اندراج یا ب فارم کے مسائل سر اٹھاتے ہیں تو پاسٹر کے پاس پریشانی کی حالت میں آتے ہیں لیکن اس وقت تک کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے کیونکہ ہمارے پاس بیک ڈیٹ میں رجسٹریشن کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہوتا اور تب سے پریشانی کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آرمی کی ملازمتوں، تعلیم حاصل کرنے اور شوہر کی وراثتی جائیداد کے حصول کے لیے ہیومن رائٹس منسٹری کے تحت نکاح کی رجسٹریشن ضروری ہے لیکن آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے کمیونٹی کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاسٹر حلیم کے مطابق ضلع بھر میں 5 سے 6 رجسٹرار ہیں اور یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ضلع میں کم از کم 100 سے زائد رجسٹرار ہونے چاہئیں اور عوام میں اس بارے آگاہی بھی ان کی ذمہ ہونی چاہیے لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ رجسٹریشن کا طریقہ کار انتہائی پیچیدہ ہے۔
میونسپل کمیٹی وہاڑی نقول برانچ کے انچارج محمد وسیم کا کہنا ہے کہ پیدائش کے اندراج کے لیے والدین کا نکاح نامہ اور شادی شدہ کے سٹیٹس والے شناختی کارڈ کا ہونا ضروری شرط ہے لیکن مسیحی کمیونٹی کے بہت سے افراد صرف اپنا شناختی کارڈ ساتھ لا کر بچوں کے اندراج کا کہتے ہیں جنہیں بتایا جاتا ہے کہ آپ کا نکاح رجسٹر ہونا ضروری ہے تو وہ چرچ کا سرٹیفکیٹ دکھاتے ہیں جس پر انہیں رہنمائی دی جاتی ہے کہ سرکاری نکاح نامہ ضروری ہے۔
محمد وسیم کا کہنا ہے کہ مسیحی کمیونٹی سے سرکاری نکاح نامہ آن لائن کرانے والے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رجسٹریشن نہ کرانے والوں کو بعد میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاسٹر رفاقت یعقوب چرچ آف ناظرین سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بشپ چرچ کا سسٹم سب سے آرگنائز ہوتا ہے اور مرکز کی جانب سے ہی انہیں تمام ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے 2021 میں نکاح رجسٹرار کا لائسنس اپلائی کیا تھا جس کی ابھی تک منظوری نہیں ہوئی کیونکہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ مقامی طور پر چرچ کی رجسٹریشن کرائیں جو ممکن نہیں ہے کیونکہ انہیں تمام ہدایات مرکزی چرچ سے ہی جاری ہوتی ہیں۔
وہ شکوہ کناں ہیں کہ اقلیتی قوانین جب بنائے جاتے ہیں تو کسی بھی معتبر مذہبی شخصیت سے مشاورت نہیں کی جاتی جو سراسر ناانصافی ہے کیونکہ مسیحی کمیونٹی کے معاملات بارے مسیحی ہی بہتر انداز میں رہنمائی کر سکتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ مسیحی مذہبی قوانین بھی مسلمان ہی بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں بے شمار سقم رہ جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال 2016 سے قبل کے شادی شدہ افراد کی رجسٹریشن کا کوئی لائحہ عمل نہ ہونا ہے جس سے اب تک ہر ضلع میں سینکڑوں خاندان مشکلات کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزارت انسانی حقوق و اقلیتی امور نکاح رجسٹرار کے لیے شرائط و ضوابط پر نظرثانی کرے اور معتبر مسیحی مذہبی رہنماؤں سے مشاورت کے بعد شرائط وضع کی جائیں کیونکہ اس وقت جو شرائط لاگو ہیں ان کے مطابق کوئی بھی بشپ چرچ اپنے پاسٹرز کو رجسٹر نہیں کروا سکے گی۔ جب بڑے چرچز کے پاس نکاح رجسٹرار کے اختیارات نہیں ہوں گے تو کمیونٹی مایوسی کا شکار ہو گی۔ یہ وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ کمیونٹی کے لوگ بڑے چرچز سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ اس لیے بند کمروں میں بیٹھ کر مسیحی کمیونٹی کے لیے قوانین وضع نہ کیے جائیں بلکہ کمیونٹی کی مکمل شراکت اور مشاورت سے قانون بنائے جائیں کیونکہ یہ ہمارا آئینی و قانونی حق ہے۔
البرٹ پطرس کا کہنا ہے کہ 2024 کے عام انتخابات سے قبل مسیحی کمیونٹی کے ساتھ مل کر اقلیتی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مسلم سیاسی رہنماؤں کی توجہ بھی شادی رجسٹریشن کے مسئلے کی جانب دلائی گئی تھی۔ امید تھی کہ نئی حکومت ہمارے مسائل بہتر انداز میں حل کرے گی لیکن 6 ماہ گزرنے کے بعد بھی کوئی امید نظر نہیں آ رہی جس سے کمیونٹی مایوسی کا شکار ہے۔
ممبر صوبائی اسمبلی پنجاب میاں ثاقب خورشید کا کہنا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق مسیحی کمیونٹی کو ضرور ملنے چاہئیں اور اس حوالے سے قانون میں جو سقم ہیں ان کو اسمبلی میں ضرور پیش کروں گا کیونکہ ملک پاکستان میں اقلیتوں کو مساوی حقوق دیے گئے ہیں۔ شادی رجسٹریشن کے حوالے سے جو مسائل سامنے آ رہے ہیں وہ مسیحی سیاسی و مذہبی رہنماؤں سے مشاورت کے بعد ایوان میں زیر بحث لائیں گے، خاص طور پر 2016 سے قبل کے شادی شدہ افراد کی رجسٹریشن کے لیے لائحہ عمل پر بات کروں گا۔ اگر اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کی ضرورت پڑی تو بلا جھجھک پیش کی جائے گی۔