میرا فوجداری مقدمات کا کوئی تجربہ نہیں، پاناما جے آئی ٹی کے رکن ڈی جی نیب کا سپریم کورٹ میں بیان

میرا فوجداری مقدمات کا کوئی تجربہ نہیں، پاناما جے آئی ٹی کے رکن ڈی جی نیب کا سپریم کورٹ میں بیان
قومی احتساب بیورو (نیب) کے ڈائریکٹر جنرل عرفان منگی، جو پاناما پیپرز لیک ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بدعنوانی کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کا حصہ تھے، نے آج (بدھ) سپریم کورٹ کو بتایا کہ ان کو فوجداری مقدمات سے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔

سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے نیب افسران کے نام پر پیسے لینے والے ملزم محمد ندیم کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔

اس موقع پر عدالت نے ڈائریکٹر جنرل نیب عرفان نعیم منگی کے تقرر اور اہلیت پر سوال اٹھایا اور سپریم کورٹ نے نیب کے تمام ڈی جیز کے تقرر سے متعلق تفصیلات طلب کرلیں۔

عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل برائے پاکستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چیئرمین نیب کے افسران کی بھرتیوں کے اختیار کا نوٹس بھی لے لیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ نیب کا سیکشن 28 آئین کے آرٹیکل 240 سے متصادم ہے، چیئرمین نیب آئین اور قانون کو بائی پاس کر کے کیسے بھرتیاں کرسکتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عرفان منگی سے پوچھا کہ آپ کی تعلیم اور تنخواہ کیا ہے، جس پر انہوں نے عدالت کو جواب دیا کہ میں انجینئر ہوں اور میری تنخواہ 4 لاکھ 20 ہزار روپے ہے۔ اس پر جسٹس عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا آپ فوجداری معاملات کا تجربہ رکھتے ہیں، جس پرعرفان منگی نے جواب دیا کہ میرا فوجداری مقدمات کا کوئی تجربہ نہیں۔

عرفان منگی کے جواب پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ ایک انجینئر نیب کے اتنے بڑے عہدے پر کیسے بیٹھا ہوا ہے، نیب کیسے کام کر رہا ہے۔ چیئرمین نیب کس قانون کے تحت بھرتیاں کرتے ہیں؟، عرفان منگی کس کی سفارش پر نیب میں گھس آئے، چیئرمین نیب اب جج نہیں، ہم انہیں عدالت بلاسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ نواز شریف کے خلاف بدعنوانی الزامات کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کا حصہ بننے سے قبل، عرفان منگی کو 2017 میں نیب کے قوانین کی خلاف ورزی کر کے ڈی جی تعینات کیا گیا تھا۔ لیکن پاناما پیپرز کے فیصلے میں، جس میں نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تھا، اس میں ڈی جی نیب کو برطرفی سے بچایا لیا گیا تھا۔

فیصلے میں اعلی عدالت نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ جے آئی ٹی ممبران، بشمول عرفان منگی سب کی حفاظت کی جائے اور کسی کی بھی نئی تقرری یا تبادلہ نہ کیا جائے۔