کشمیر کی آزادی پاکستان کی سیاسی اور معاشی طاقت سے ممکن ہے

کشمیر کی آزادی پاکستان کی سیاسی اور معاشی طاقت سے ممکن ہے
ہر سال کی طرح اس سال بھی پانچ فروری پاکستان میں کشمیر ڈے کے نام سے منصوب ہے۔ اس دن سرکاری تعطیل ہوتی ہے اور بڑے و چھوٹے پیمانے پر جلوس اورریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ ان جلوسوں اور ریلیوں میں بڑھ چڑھ کر مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کی جاتی ہے۔ ان ریلیوں میں مقبوضہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کرانے کے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے اور بھارتی مظالم کی بھرپور منظر کشی کی جاتی ہے۔

باباۓ قوم قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا ۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالہ سے بھارت کے تمام دعووں اور اقدامات کا جائزہ لیا جاۓ تو پاکستان کے دعووں کے مقابلہ میں ان کے دعوے بودے ہیں جن کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں۔

بھارتی متعصب وزیراعظم نریندر مودی نے تقریباً ساڑھے تین سال قبل آرٹیکل 370 منسوخ کر کے کشمیر کے معاملہ کو مزید متنازعہ بنا دیا تھا، ان کے اس فعل سے جہاں کشمیریوں کی خود ارادیت متاثر ہوئی ہے، وہاں دنیا میں انصاف کے علم برداروں کو بھی للکارا گیا ہے کہ اگر کسی میں دم ہے تو ہم سے کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کروا کے دکھاۓ۔

ابھی بھی بھارتی ناقدین کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کا موازنہ آزاد کشمیر سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس موقع پر میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ پاکستان کے آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر اسی صورت تسلیم کیا جا سکتا ہے جب آزاد کشمیر میں بھی مقبوضہ کشمیر کی طرح فوج موجود ہو جو نہتے مسلمان کشمیریوں پر ظلم و ستم کی داستانیں رقم کر رہی ہو۔ اگر یہ سب نہیں دکھا سکتے تو ناقدین کو تسلیم کر لینا چاہیۓ کہ جو کشمیر پاکستان کے پاس ہے وہ ہرگز بھی مقبوضہ نہیں ہے، اور جو کشمیر بھارت کے قبضہ میں ہے وہ یقیناً مقبوضہ ہی ہے-

ہم ہر سال 5 فروری کو جس جوش و خروش سے یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں اور جس جذبے سے ریلیوں اور جلوسوں کا انعقاد کرتے ہیں، تومیں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ کیا ان ریلیوں اور جلوسوں سے کشمیر آزاد ہو جائے گا؟

اگر ایسا ہو جائے تو پھر دنیا کے تمام ممالک میں مسائل کے حل ریلیوں اور جلوسوں سے نکلنے لگیں گے ۔اگر اخلاقی طور پر دیکھا جائے تو بھارت نے جب اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکٹایا تھا تو اس کے فیصلے کی روشنی میں کشمیری عوام کو حق رائے دہی کی اجازت دے کر ان کے مستقبل کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں چھوڑنا چاہیۓ تھا۔ مگر اقوام متحدہ تو بدقسمتی سے صرف غریب اور کمزور ممالک پر حکمرانی کرنے کے لیۓ قائم ہے، جب کہ طاقتور ممالک اس کے فیصلوں کو فی الفورردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔

اسی طرح اگر جنگوں سے تنازعات حل ہونے ہوتے تو کشمیر کا مسئلہ اب تک حل ہو گیا ہوتا۔ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ بھارت کا اثرورسوخ اور باہمی تعلقات دنیا کے ان طاقتور ممالک سے ہم سے زیادہ ہیں، جو کہ اقوام متحدہ کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ تو یہی ہے کہ بھارت کی افرادی قوت اور معیشت پاکستان کی معیشت سے بڑی اور مضبوط ہے۔ اسی وجہ سے طاقتور ممالک بھی بھارت کے ساتھ بگاڑ پیدا نہیں کرتے جب کہ ہمیں مغربی ممالک تو ایک طرف طاقتور اسلامی ممالک بھی ٹھیک سے گھاس ڈالنا پسند نہیں کرتے۔

کشمیر کے مسئلہ کا حل کشمیری عوام کو آزادانہ رائے دہی دینے سے ہی ممکن ہے، اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب ہم معاشی طور پر اتنے مضبوط ہوں کہ دنیا کے طاقتور ممالک کو بھی ہماری ضرورت محسوس ہو اور وہ بھارت پر دباؤ ڈال کر ایسا کرنے پر مجبور کریں۔ بصورت دیگر کشمیر کمیٹیاں بنتی رہیں گی، کشمیر کے نام پر پیسہ ہڑپ ہوتا رہے گا، وزارتیں بٹتی رہیں گی اور کشمیری مظلوم یوں ہی پستا رہے گا۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔