بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا

بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا
بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقے ضلع آواران کے گاؤں تیرتِج کے غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ احمد بلوچ جسے ہم احمد ابنِ سکینہ کے نام سے جانتے ہیں، اس کا ایک چرواہے سے معروف کتھک ڈانسر اور آرٹسٹ بننے تک کا سفر بڑا دلچسپ ہے۔

موسیقی سے ان کے دلچسپ سفر کا آغاز ان کے گھر کے ماحول سے شروع ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے گھر میں ریڈیو سننے کا رواج ان کے دادا سے شروع ہوا۔ جس کے بعد ان کے گھر کی خواتین رات کو کپڑے سیتے وقت ریڈیو سنتی تھیں جس میں انڈین موسیقی چلتی تھی۔ گھر والوں کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بچپن میں ہی احمد کے کانوں نے موسیقی سے ناطہ جوڑ لیا تھا اور ان کے جسم کی روم روم میں گھنگھروؤں کی جھنکار نے گھر کر لیا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد جو دبئی میں مزدوری کرتے تھے، انہوں نے وہاں سے ایک ریڈیو بھیجا تو اسے وہ لے کر بکریاں چرانے جنگل جاتے تھے، وہاں موسیقی سن کر رقص کیا کرتے تھے۔

احمد کہتا ہے "ریڈیو سنتے وقت میں بکریوں کی آوازوں کو بھی نوٹس کرتا تھا۔ ان کے قدموں کی آوازیں، ان کی چرتے ہوئے آوازیں، پتّوں کا گرنا، تیز ہواؤں کا درختوں کے ساتھ ملاپ اور اس سے تخلیق ہوتی نئی آوازیں، پرندوں کا چہکنا، سورج کا نکلنا اور پھر ڈوب جانا، فطرت کے ان سب کرشمات میں ایک الگ کیفیت محسوس ہوتی تھی۔ اسی سے متاثر ہو کر میں اپنے جسم اور اپنے قدموں پر بھی غور کرتا تھا اور اسے نیچر کے ساتھ رقص کی صورت میں جوڑ لیتا تھا"۔

نیچر کی فضاؤں میں احمد نے اپنا ایک آرٹ فارم رقص کی صورت میں تخلیق کر لیا تھا اور اسے خبر بھی نہ تھی کہ یہ آرٹ فارم دنیا میں کہیں اور بھی پرفارم کیا جاتا ہے۔ یہ انکشاف ان پر تب ہوا جب وہ آواران کالج سے انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد جامعہ بلوچستان کوئٹہ چلے گئے، تو وہاں ساکم سخن گنج نامی ان کے پہلے گُرو نے انہیں بتایا کہ اس ڈانس فارم کو کھتک کہا جاتا ہے۔ انہوں نے احمد کو کچھ ویڈیوز بھی دکھائیں، تب ان کے سیکھنے اور پرفارم کرنے کی چاہت مزید بڑھ گئی۔

آرٹ کے فطری ناطے نے احمد کو بلوچستان میں رہنے نہیں دیا اور وہ مہران یونیورسٹی کے سنٹر آف ایکسیلنس اِن آرٹ اینڈ ڈیزائن میں بی ایس کرنے چلے گئے جہاں انہوں نے آرٹ اینڈ ڈیزائن کی تعلیم حاصل کی اور وہاں بھی کتھک ڈانس جاری رکھا۔ پھر انہوں نے نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کا رُخ کیا جہاں سے انہوں نے ویژول آرٹ میں ایم فِل کی ڈگری حاصل کی۔ احمد نے باقاعدہ کتھک کی ٹریننگ لاہور میں میڈیم زرین پنّا سے حاصل کی اور ناہید صدیقی صاحبہ کی پروڈکشن کے ساتھ بھی انہوں نے دو سال تک ٹریننگ لی ہے۔

Ahmad Baloch Kathak dance

شعوری عمر کو پہنچنے کے بعد وہ اپنی زندگی کا تجزیہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ”بچپن میں میرا کوئی خاص ایکسپوژر نہیں رہا ہے۔ میں بہت محروم بچہ رہاں ہوں۔ میں نے کبھی اپنے والدین سے کسی بھی چیز کے لئے ضد نہیں کی۔ اب جو مجھے شعور آیا ہے تو میں اپنے بچپن کو دوبارہ جینا چاہتا ہوں، اپنا سپیس دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہوں، جو مجھے بچپن میں نہیں ملا وہ اب میں پانا چاہتا ہوں، اس کے لئے میں اپنا آرٹ فارم استعمال کرتا ہوں۔”

ہمارے معاشرے میں مرد کے ناچنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے جب کہ مرد اگر فراک اور گھنگھرو پہن کر ناچے تو اسے دوسری یا تیسری جنس کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، اس پر احمد کا کہنا ہے کہ "یہ لوگوں کے غلط تصوّرات ہیں، کتھک کے بنیادی پرفارمر مرد ہی رہے ہیں، اس آرٹ فارم میں رادھا کرشنا کی محبت کی داستان بیان کی جاتی ہے، جس میں مرد کرداروں کے ساتھ بچوں اور عورتوں کے ایکسپریشن بھی شامل ہوتے ہیں"۔

گھنگھرو پہننے کے سوال پر وہ وضاحت کرتے ہیں کہ "گھنگھرو کسی کمزوری یا عورت کی نشانی نہیں ہے بلکہ یہ ایک میوزیکل انسٹرومنٹ ہے جو طبلے کی تال کے ساتھ بجتا ہے"۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ "کتھک ڈانس میں پرفارمر کے جسم کا ایک ایک حصہ ایکسپریشن دے رہا ہوتا ہے تو پھر مردوں کی نظریں پاؤں کے گھنگھروؤں پر کیوں ہوتی ہیں۔ وہ اسے غلامی کی نشانی سمجھتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ گھنگھرو غلامی کی زنجیر نہیں آزادی کی جھنکار ہے"۔

معاشرے کے غلط تصورات پر تنقید کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "کتھک ڈانسر کو دیکھ کر مردوں کی مردانہ نفسیات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور وہ عدم تحفظ کا شکار محسوس کرنے لگتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے لوگوں کو کتھک کی تاریخ پڑھنی چاہیے، اسے اپنانا چاہیے کیونکہ یہ اس خطے کی تاریخ اور ثقافت کا اہم جُزو ہے"۔

کتھک ڈانس کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس میں مسکولانیٹی اور سافٹ لاشے شامل ہیں، جسے مزید اسی گھرانوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جیسا کہ لکھنؤ گھرانہ، بنارس گھرانہ، آگرا گھرانہ اور جے پور گھرانہ، وغیرہ۔ احمد کا کتھک فارم لکھنؤ گھرانہ ہے، جس کے متعلق وہ بتاتے ہیں کہ "اس فارم میں نزاکت اور خوبصورتی بہت ہے اس لئے اسے عورت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے"۔

احمد کی جنسی شناخت پر سوال اٹھانے والوں کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ "مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں، میں آرٹسٹ ہوں اور آرٹ کسی جنس کے تابع نہیں ہوتا۔ مجھے اپنی شناخت کہیں ثابت کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی، لیکن میں چاہتا ہوں کہ لوگ آرٹ کو آرٹ کے ہی طور پر لیں، اسے جنس کے ساتھ نہ جوڑیں۔”

معاشرے کا رویہ احمد کے ساتھ منفی اور مثبت دونوں رہا ہے مگر وہ منفی رویّوں کو درگزر کر کے مثبت پہلوؤں کو ساتھ لے کر آگے بڑھتے ہیں جن سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کے چند یادگار حوصلہ افزا لمحات یاد کرتے ہوئے جذبات میں اشکبار ہوئے، جس سے ان کے آرٹ سے زبردست لگاؤ کا پتا چلتا ہے۔

"میری ابتدا ہی حوصلہ افزائی سے شروع ہوئی ہے۔ جب میں نے پہلی بار پی ٹی وی بولان کی ایک تقریب میں پرفارم کیا تو مجھے تیسری پوزیشن دینے پر ایک خاتون نے باقاعدہ ججز کے ساتھ میرے لئے لڑائی کی کہ میں پہلی پوزیشن کا حقدار ہوں۔ اس دن مجھے احساس ہوا میرے آرٹ کو سپیس حاصل ہو سکتی ہے، اس سے میرا حوصلہ بڑھا"۔

اسی طرح ایک اور اہم واقعے کا ذکر کرتے ہیں کہ "مہران یونیورسٹی میں کلاس ٹیچر نے مجھے پرفارم کرنے کا موقع دیا تو پرفارمنس کے بعد میں نے دیکھا میرے سامنے میری ہم کلاس لڑکیاں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں، تب مجھے بہت حیرت ہوئی کہ میرا آرٹ اتنا مضبوط ہے کہ یہ دوسروں کے جذبات کو چھو سکتا ہے، انہیں میرے محسوسات کے ساتھ جوڑ سکتا ہے اور ایک دوسرے کے احساسات منتقل بھی کر سکتا ہے"۔

ایسا ہی ایک اور واقعہ جس کا تذکرہ بھی اہم ہے، جب انہوں نے تربت کے ایک کالج میں پرفارم کیا تو سات، آٹھ سال کے ایک بچے نے آ کر ان کا ہاتھ چھوم لیا۔ اس پر احمد کہتے ہیں کہ "میرا آرٹ فارم بہت طاقتور ہے، یہ سات سال کے بچے سے لے کر نوجوانوں اور بزرگوں تک کے جذبات کو چھو سکتا ہے، میرے رقص کی بدولت لوگ اپنے اصل جذبات و احساسات سے ملاقات کر سکتے ہیں۔"

احمد کتھک کے علاوہ خود کو کہیں اور فِٹ نہیں پاتے۔ ان کے مطابق انہوں نے سکولوں میں پڑھانےکی کوشش کی ہے مگر وہ کہیں ایڈجسٹ نہیں ہو پائے۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ کتھک کو مزید پھیلائیں مگر انہیں اس سلسلے میں کوئی مدد حاصل نہیں ہے۔

ان سے کتھک سیکھنے کے لئے مختلف جگہوں سے لوگ رابطہ بھی کرتے ہیں جن میں طلبہ سمیت گھریلو خواتین بھی شامل ہیں، مگر کسی ادارے کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ باقاعدہ کلاسز کا آغاز نہیں کر پا رہے۔

حکومت کی جانب سے تعاون کے سوال پر ان کا کہنا ہے کہ "سرکار کے لئے تو ہم سوتیلے بچّے ہیں، ہمیں کوئی نہیں اپناتا، ان کی جانب سے مجھے آج تک کوئی موقع یا پذیرائی نہیں ملی، جتنی سپیس ملی وہ ملک کے ترقی پسند حلقوں کی مرہونِ منّت ہے"۔

احمد نے اپنی والدہ کی محبت اور احسانات کے پیش نظر ان کے نام سکینہ کو اپنے نام کے ساتھ جوڑ لیا ہے۔ وہ کتھک ڈانسر کے علاوہ بہت خوبصورت پینٹر بھی ہیں۔ پینٹنگز بنا کر ان کی نمائش سے جو کمائی انہیں ملتی ہے اس سے وہ اپنا گھر چلاتے ہیں۔ مگر وہ بحیثیت کتھک ڈانسر زیادہ شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ انہیں کتھک کے انتخاب پر ناز ہے، جب کہ مزید سیکھنے اور آگے بڑھنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔

"مجھے بالکل بھی افسوس نہیں ہے کہ مجھے کتھک کی جگہ کسی اور شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے تھا، کتھک تو میری جان ہے، اس سے میں اپنے جذبات کو اظہار دے پاتا ہوں اور دوسروں کے جذبات کو بھی اجاگر کرنے میں مددگار ہو سکتا ہوں، ہاں البتہ اس بات کا ملال ہے کہ بیلارینا کی کلاسز یہاں کیوں نہیں ہوتیں، میری خواہش ہے کہ میں بیلے بھی سیکھوں اور پرفارم کروں"۔