عید پر ’’اجتماعی نیند‘‘… کیا صرف پاکستانی شہری ہی عید پر سوتے ہیں؟

میں اب تک یہ سوچا کرتا تھا کہ طویل چاند رات پر بیوی کو عید کی خریداری کروا کر جو عموماً صبح تک جاری رہتی ہے اور جس کے بعد ہاتھوں پیروں پر مہندی لگانے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اور اگر کوئی وقت بچ جائے تو وہ عید کی نماز کی تیاری میں صرف ہو جاتا ہے۔ آپ عید کی نماز پڑھ کر گھر آتے ہیں، ناشتہ کرتے ہیں، کچھ میٹھا کھاتے ہیں اور سب سے عید ملنے کے بعد نماز ظہر کے قریب لمبی تان کو سو جاتے ہیں۔ میں طویل عرصہ تک یہ سمجھتا رہا کہ چاند رات پر رتجگا لازمی ہے کیوں کہ یہ تمام سرگرمیاں ہماری ثقافت کا حصہ ہیں۔

لیکن اردو نیوز کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ سعودی عرب میں بھی پاکستان کی طرح لوگ چاند رات پر جاگتے ہیں اور اگلے دن ان کا سونا لازمی ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ سعودی عرب میں رمضان المبارک کے دوران ہی دن اور رات کی کایا کلپ ہو جاتی ہے۔ دن رات میں تبدیل ہو جاتے ہیں جن میں لوگ نماز ظہر تک سوتے ہیں جب کہ رات دن میں تبدیل ہو جاتی ہے جن میں پوری مارکیٹ نماز فجر سے پہلے تک کھلی رہتی ہے۔

عید کا اعلان ہوتے ہی مقامی و غیر ملکی اور چھوٹے بڑے سب رتجگا کرتے ہیں۔ نماز عید کے بعد عزیز و اقارب سے عید ملنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو نماز ظہر کے قریب تک جاری رہتا ہے جس کے بعد سعودی عرب کی شاہرائوں پر خاموشی چھا جاتی ہے، شہر کے شہر ویران ہو جاتے ہیں اور بازاروں میں تو گویا ہڑتال کا سماں ہوتا ہے۔

اس ساری صورت حال پر ایک ٹویٹر صارف کو شرارت سوجھی اور اس نے ’’ اجتماعی نیند‘‘ کے نام سے ہیش ٹیگ شروع کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہو گیا۔



اجتماعی نیند کے نام سے شروع کیا گیا یہ ٹرینڈ اس قدر مقبول ہوا کہ سعودی شہریوں کے علاوہ غیر ملکی صارفین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

سعودی صارف عبدالعلی نے ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا، ہر برس عید کی نماز کے بعد خاندان میں عید ملن پارٹی کی جاتی رہی ہے۔ رواں برس میں نے سوچا کہ ’’ اجتماعی نیند‘‘ کی مشکلات پر قابو پانے کے لیے رات کو سویا جائے تاکہ صبح تازہ دم رہیں۔ صبح نماز پڑھ کر گھر واپس آیا تو معلوم ہوا کہ رواں برس عید ملن پارٹی رات کو ہو گی۔ اب پورا شہر سو رہا ہے اور میں جاگ رہا ہوں۔

ایک سعودی شہری کا دکھ پاکستانی شوہروں سے مختلف نہیں تھا۔ نایف العتیبی سے جب اجتماعی عید کے رجحان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، چاند رات کو سونا سرے سے ممکن ہی نہیں۔ گھر میں بچے اور بڑے سب جاگ رہے ہوتے ہیں۔ بازاروں میں خریداروں کا رش ہوتا ہے۔ اور آخری وقت پر بیوی کو شاپنگ کرنا یاد آجاتا ہے۔ یوں صبح ہو جاتی ہے اور ظہر کے بعد سونا لازمی ٹھہرتا ہے۔

یوں اجتماعی نیند کی اصطلاح کسی ایک مسلمان ملک سے منسوب کرنا موزوں نہیں، عرب دنیا کیے دیگر ملکوں سمیت پاکستان اور انڈیا میں بھی ایسا ہی ہے اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد عید سو کر گزارتی ہے اور رات کے وقت شہر کی سڑکوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔