اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج میں شرکت پر درج مقدمہ کے خلاف کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی وزیر شیری مزاری کی بیٹی وکیل ایمان مزاری اور دیگر کو گرفتار نہ کرنے کا تحریری حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ایف آئی آر سے معلوم ہوتا ہے کہ نوجوانوں کے پر امن مجمع کو طاقت کا غلط استعمال کر کے منتشر کیا گیا، نعرے لگانے کو خواہ وہ کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں، کسی بھی صورت جرم یا مجرمانہ سازش قرار نہیں دیا جا سکتا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ ایف آئی آر میں درج دفعات سے بظاہر لگتا ہے کہ اختلاف رائے کی حوصلہ شکنی کے لیے ایسا کیا گیا، آئین کے تحت چلنے والے معاشرے میں طاقت کا غلط استعمال ناقابل برداشت ہے، ریاستی ذمہ داران کی جانب سے تشدد اور بغاوت کی کارروائیاں ناقابل معافی اور ناقابل برداشت ہیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ ریاست کو شہریوں کے اظہار رائے کے لیے حوصلہ افزائی اور ایسا ماحول پیدا کرنا چاہئے کہ وہ سیاسی مباحثوں میں بغیر خوف اور روک ٹوک حصہ لے سکیں، پر امن اجتماع میں مداخلت کرنا اختیارات کا غلط استعمال اور اپنے اختیار سے سنگین تجاوز ہے، اختیارات کے غلط استعمال کا یہ پہلا کیس نہیں کو اس عدالت کے سامنے آیا ہے، مخصوص کلاس کو ٹارگٹ کر کے اختلاف، تنقید اور سیاسی بحث کو دبانے کی کوشش کرنا ناقابل برداشت ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر، آئی جی اور سیکرٹری انسانی حقوق عدالت پیش ہوں، پیش ہو کر پر امن نوجوانوں کے خلاف پولیس فورس کے استعمال اور پھر ایف آئی آر درج کرنے کا جواز دیں، توقع ہے کہ وہ ان پولیس اہلکاروں کی نشاندہی کریں گے جو پر امن مجمع کے حقوق کی خلاف ورزی کے ذمہ دار ہیں۔