24 ممالک برکس کرنسی کو قبول کرنے کے لیے تیار

24 ممالک برکس کرنسی کو قبول کرنے کے لیے تیار
موجودہ عالمی اقتصادی مسابقت کے ماحول میں روس کی سربراہی میں سیاسی بلاک کے اندر ’برک‘ (BRIC) کے نام سے ایک نئی بین الاقوامی کرنسی متعارف  کروائی جارہء ہے اور BRICS کرنسی کے بین الاقوامی سطح پر لانچ ہونے کے بعد 24 ممالک اسے قبول کرنے اور اس کے ذریعے تجارت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

برکس (BRICS) ممالک میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں اور اس کرنسی کا مقصد عالمی تجارتی منڈی میں ڈالر کا استعمال کم کرکے امریکا کے اثر و رسوخ کا توڑ کرنا ہے۔ اگر برکس کرنسی کو اہمیت حاصل ہو جائے تو ڈالر کا غلبہ کمزور ہو سکتا ہے جس سے مشرقی ممالک کو امریکہ سے زیادہ مالی طاقت حاصل ہو گی۔

بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق، جنوبی افریقہ کے برکس کے سفیر انیل سوکلال نے کہا کہ 19 ممالک نے اتحاد میں شامل ہونے کے لیے اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ سوکلال نے تصدیق کی کہ 13 ممالک نے برکس اتحاد میں شمولیت کے لیے باضابطہ طور پر درخواستیں بھیجی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پانچ دیگر ممالک نے غیر رسمی طور پر بلاک کا حصہ بننے کی درخواست کی ہے۔

جن ممالک نے برکس اتحاد میں شامل ہونے میں دلچسپی ظاہر کی ہے وہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ارجنٹائن، مصر، بحرین، انڈونیشیا، الجزائر اور ایران ہیں۔  مشرقی افریقہ سے دو نامعلوم ممالک اور مغربی افریقہ سے ایک نے اپنی درخواستیں بھیجی ہیں۔

کئی ممالک برکس کرنسی میں تجارت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ قومیں امریکی ڈالر سے دور ہو کر امریکی مالیاتی بالادستی کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ ڈالر قرض کے خطرے کے ساتھ آتا ہے جو مقامی کرنسیوں کو تباہ کر سکتا ہے اگر امریکہ کساد بازاری میں پھسل جاتا ہے۔

اگر مزید ممالک ڈالر کو چھوڑ دیتے ہیں تو امریکہ کے پاس اپنے خسارے کو پورا کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہے گا جس سے ڈالر کمزور ہو جائے گا۔ اس سے جلد ہی جاری ہونے والی برکس کرنسی کو نئے مالیاتی ورلڈ آرڈر میں اہمیت حاصل ہو سکتی ہے۔

اگر دنیا بھر کی قومیں BRICS کرنسی کے ساتھ تجارت کرتی ہیں تو ڈالر کی قیمت گر سکتی ہے۔ اس لیے امریکی ڈالر کی قسمت کا فیصلہ برکس گروپ کی 15ویں سربراہی کانفرنس میں کیا جائے گا  جو اگست 2023ء میں جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں ہو گی۔ جہاں اس حوالے سے بات چیت سے بڑھ کر عملی اقدامات متوقع ہیں۔

علاوہ ازیں، فارن پالیسی میگزین کی رپورٹ کے مطابق ڈالر کو محدود کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ گزشتہ ماہ نئی دہلی میں ایک روسی عہدیدار نے اعلان کیا تھا کہ روس نئی کرنسی کے اجراء کے لیے اپنا قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے تاکہ برکس ممالک آپس میں آزادانہ تجارت کر سکیں۔ اس کے بعد اپنے دورہ چین کے موقع پر برازیل کے صدر لولہ دا سلوا نے بھی اس سے ملتی جلتی رائے کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے سوال اٹھایا تھا کہ ’’تمام ممالک کو اپنی تجارت ڈالر میں ہی کیوں کرنی چاہیے؟‘‘

1960 کی دہائی سے عالمی تجارت میں امریکی ڈالر کو ختم کرنے کی خواہش کے بارے میں دنیا بھر میں بات ہوتی رہی ہے تاہم معاملہ بات چیت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ ذرائع کے مطابق فی الحال بین الاقوامی تجارت میں 84.3 فیصد ڈالر استعمال ہوتا ہے۔ اس کے برعکس چینی یوآن کا استعمال صرف 4.5 فیصد ہے۔

اگر اس ساری صورت حال کا اقتصادی نکتہ نظر سے تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ برکس کی جاری کردہ کرنسی کی یقینی کامیابی کے امکانات معدوم ہیں حالانکہ اس کے لیے ابتدائی سطح کا کام ہو چکا ہے اور منصوبے کو عملی صورت میں ڈھالنے بارے ٹھوس بنیادیں موجود ہیں۔ یہ کرنسی ممکنہ طور پر امریکی ڈالر کو برکس رکن ممالک میں ریزرو کرنسی کے طور پر چیلنج کر سکتی ہے۔ ڈیجیٹل یوآن جیسے ماضی کے حریفوں کے برعکس، بہرحال یہ مجوزہ کرنسی کم از کم ڈالر کی اجارہ دارانہ پوزیشن کو کمزور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔