کل سے سوشل میڈیا پر خوشاب میں ایک بنک مینیجر کے ان کے اپنے ہی بنک کے گارڈ کے ہاتھوں قتل کی خبر نظروں سے بار بارگزر رہی ہے ۔ تاحال کوئی حتمی بات سامنے نہیں آئی ہے مگر جس قدر ویڈیوز اور خبر کے پہلو سامنے آئے ہیں ( جن میں اس گارڈ کااپنا ، تھانے میں انتہائی شان سے کرسی پر جلوہ افروز ہو کر چائے کی سڑکیاں لیتے ہوئے بیان بھی شامل ہے ) ان کے مطابق ، اسمیں گستاخی کا کوئی عنصر نہیں تھا ، یہ مکمل طور پر اس گارڈ اور اس کے مینیجر کے مختلف مسلک سے ہونا ، یا پھر کسی ذاتی دشمنی کانتیجہ تھا ، جس میں گستاخی کا نام استعمال کر کے جرم کو ، کارنامہ بنانے کی کوشش کی ، اور ابتدائی طور پر یہ کوشش بہت کامیاب بھی ہوئی۔
جس کا واضح ثبوت وہ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز ہیں جن میں قاتل کے ساتھ ایک قافلہ نعرہ بازی کرتا سڑکوں پر ہلڑ مچا رہا ہے، اور تھانے کے گرد اس کو فرار کروانے کو جمع ہوئے لوگ ہیں جو کہ اعانت مجرم ایک ثواب کا عمل سمجھ کر ، کرنے کو وہاں جمع ہوئے ہیں۔
ہمارے تھانوں کے بارے میں جس قدر کہانیاں مشہور ہیں اس کے بعد اس کا کرسی پر بیٹھ چائے پیتے فخر سے قصہ بیان کرنا بھی، اسی بات کی غمازی کرتا ہے کہ یا تو پولیس بھی ثواب کے دریا میں ہاتھ دھونے کو بیتیاب ہے ، یا اگر کوئی معقول افسر موجود بھی ہے تو بیرونی طور پر اس قدر دباؤ موجود ہے کہ مجرم کو صاحب کہنے پر مجبور ہے ۔
گارڈ کا ظاہری حلیہ اور انداز ، محترم کے سنت پر عمل پیرا ہونے اور دین کے علم کے بارے میں ان کے حالات کی غمازی بخوبی کر رہا ہے ۔
یہ سب تماشہ دیکھ کر ، بچپن کی کہانی یاد آ گئی ، کہ ایک نائی کی دکان کے گرد بہت سے درخت تھے ، جن پر بندر رہتے تھے ، بندر نائی کو استرا استعمال کرتے عرصے سے دیکھ رہے تھے۔ ایک دن جو نائی دکان کی کھڑکی کھلی چھوڑ کر کہیں گیا تو بندر بھاگے دکان میں اوراستروں کے تھیلے پر قبضہ جما لیا ، قصہ مختصر کسی کے کچھ بھی کر پانے سے پہلے ، سبھی بندر تکلیف سے چیختے ، خون میں بھیگتے ، مگرایک دوسرے کے منہ پر استرے چلاتے رہتے ، جس بندر کے استرا زور سے لگتا ہو گا وہ جواباً اتنے زور سے دوسرے کے منہ پر مارتاہو گا ، قصہ مختصر سبھی بندر دوسرے جہان روانہ ہوئے۔
کب سے مذہب کا استرا ، کچھ لوگوں نے ہاتھ میں سنبھال کر بھولے بھالے یا جاہل عوام کی بہت حجامت کی تھی ، مگر شاید اب بندر بھی یہ عمل دیکھ دیکھ کر خود کو نائی ہی سمجھنے لگے ہیں ، سو جہاں موقع ملتا ہے ، اپنے حصے کا استرا لیکر میدان میں اترنے لگےہیں۔ پر ، مرے کو سو درے “ ساتھی بندر اطراف میں کھڑے چلا چلا کر مزید اکسا کر ، اس کو فن مین ماہر ہونے کا مزید گمان دیے جارہے ہیں
اب بات شاید کسی کے بھی اختیار سے بڑھ چکی ہے ، کیوں کہ اگر کوئی سمجھانا چاہے بھی تو اب سمجھانے والا گستاخ ہو گا ، حل توصرف یہی رہ گیا ہے یا تو اب نائی واپس آئیں اور بزور قوت یہ استرے واپس لیے جائیں ، کم اور محفوظ ہاتھوں میں ہو ان کااستعمال ، یا پھر بیٹھ کر خونچکاں تماشا دیکھا جائے۔
بات صرف اس ایک موضوع تک محدود نہیں ہے ، ہر چھوٹے سے چھوٹے موقع پر مخالفت اور نفرت کا طوفان دیکھنے کو ملتا ہے ،کہیں پر نماز کی رکعات پر لڑائی ، کہیں پر ہاتھ اٹھانے یا نا اٹھانے کا جھگڑا ، کہیں پر نعت پڑھنے یا نہ پڑھنے ہر کفر کا فتویٰ ، شاید کوئی ایسا معاملہ ہو جس پر نفرت اور سامنے والے کو تکلیف دینے کا موقع ہاتھ سے جانے دیا جاتا ہو۔
ہم شاید برداشت کرنے اور دوسرے کو خوش دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں ، جہاں کوئی خوشی مناتا نظر آتا ہے وہاں مذہب کی سوئی لیکر پہنچ جاتے ہیں ، کہیں بچوں کی سالگرہ پر جھگڑا ، کہیں بچیوں کے سکول جانے پر تماشہ، جہاں پر اپنے فرائض پورے کرنے کی بات آۓ ، وہاں ہم بھی گناہ گار ہیں سب سے غلطیاں ہو جاتی ہیں ۔ جہاں کوئی حق نکلتا ہو، وہاں سامنے والے کو غلطی کیا تھوڑی کمی کی بھی اجازت نہیں۔
مذہب کا وہ بیدردی سے استعمال ہوا ہے کہ وہ کچھ بھی ہو ، اب بس راستہ دکھانے والی روشنی نہیں رہا ہے۔