Get Alerts

میرے دوست کا قاتل احسان اللہ احسان کیسے فرار ہو سکتا ہے؟

میرے دوست کا قاتل احسان اللہ احسان کیسے فرار ہو سکتا ہے؟
یہ  2012 کا واقعہ ہے۔ میں پریس کلب میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا گپ شپ لگا رہا تھا کہ اس دوران میرے دفتر کے فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف سے سسکیوں بھری آواز تھی۔ میں نے پوچھا، کیا ہوا؟ اس نے جواب دیا، میرے بھائی کو مسجد میں شہید کیا گیا اور میرے ہاتھ سے فون کا ریسیور گر گیا۔ یہ کہانی قبائلی علاقے کے ایک صحافی کی ہے جنہوں نے جنوری 2012 میں تحریک طالبان پاکستان کے ایک حملے میں اپنے دوست صحافی کو کھویا۔

نیا دور میڈیا کے ساتھ احسان اللہ احسان کے مبینہ فرار کے بعد خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ نہ صرف قبائلی اضلاع میں شہید کیے گئے صحافیوں کا قاتل ہے بلکہ 80 ہزار سے زائد پاکستانیوں کا بھی قاتل ہے۔ ان کے فرار کی خبر سن کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔

نیا دور کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ جب مجھے اطلاع ملی تو ہم نے مختلف نمبرز پر رابطہ کیا مگر ہر جگہ سے یہی خبر آئی کہ وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں۔



ہم نے گاڑی پکڑ لی اور دیگر دوستوں کے ساتھ ان کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے مگر یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہمارے سرزمین کے نامور اور بہادر صحافی کو کوئی مار سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم راستے میں تھے۔ کوئی کسی کے ساتھ بات نہیں کر رہا تھا کہ اس دوران احسان اللہ احسان کے ذاتی نمبر سے میرے موبائل کی گھنٹی بجی اور میں نے نہ سلام کیا، نہ ان کی خیریت پوچھی، بس اتنا کہا بتاؤ، کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ یہ میرے دوست کے قتل کی ذمہ داری کے لئے ٹیلیفون کر رہا ہے۔ احسان اللہ احسان نے مجھ سے فون پر پوچھا کہ کیا کر رہے ہو۔

میں نے غصے میں جواب دیا، صاحب، ڈانس کر رہا ہوں۔ جس پر وہ غصہ اور پھر ناراض ہو گئے تو میں نے جواب دیا، میرے جگر کا ٹکڑا مرا ہے، ظاہر سی بات ہے کہ ماتم کر رہا ہوں، جس پر انہوں نے بس اتنا کہا کہ ہماری تنظیم ان کے قتل کی ذمہ داری لے رہی ہے اور فون بند کر دیا۔



انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے درجنوں ایسے خود کش حملے اور دھماکے کور کیے ہیں جن میں مرنے والوں کے لواحقین کی کہانیاں درناک ہیں۔ ان دھماکوں کی ذمہ داری ہر بار احسان اللہ احسان نے قبول کی اور ہم خوش تھے کہ چلو اس کے پھانسی کے پھندے پر چڑھنے سے ہمارے دلوں کو کچھ سکون مل جائے گا مگر ان کے فرار ہونے کی خبر سن کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔





مصنّف اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔