نارووال- شکرگڑھ میں کام کرنے والے سینیٹری ورکرز کا استحصال

نارووال- شکرگڑھ میں کام کرنے والے سینیٹری ورکرز کا استحصال
نارووال- شکرگڑھ میں کام کرنے والے سینیٹری ورکرز کا استحصال ہورہا ہے۔ تنخواہوں میں مسلسل کٹوتی ہوتی ہے۔ نہ کبھی کوئی حفاظتی سامان دیا گیا اور نہ ہی کبھی عید بونس دیا جاتا ہے۔

صابر مسیحی روزانہ صبح 4 بجے اٹھتے ہیں اور صبح 9 بجے تک شہر کی سڑکوں کی صفائی کرتے رہتے ہیں۔ سڑکوں کی صفائی کے بعد وہ اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ میونسپل کمیٹی کے دفتر میں حاضری کے لیے جاتے ہیں ۔ شکرگڑھ میونسپل کمیٹی کے گیٹ کے باہر حاضری کے انتظار میں بیٹھے اپنی پریشانیاں، اپنے مسائل، خیالات ایک دوسرے کے ساتھ اس امید پرایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ ایک صبح ان کے تمام مسئلے ٹھیک ہو جائیں گے۔

حاضری کے بعد وہ دوپہر 2 بجے تک دوبارہ کام پر چلے جاتے ہیں جہاں وہ بغیرکسی مستقل معاہدے، حفاظتی اقدامات، ہیلتھ انشورنس کے انتہائی خطرناک حالات،مثلاً گندے نالوں اور گٹروں میں ہاتھ ڈال کر -جس میں وہ گر سکتے ہیں اور کوئی بھی جانی نقصا ن پہنچ سکتاہے-مصروف شہر کی گندگی کو صاف کرتے ہیں۔

صابر کا کہنا ہے کہ وہ دیہاڑی دار ہے اور جس دن سے وہ کام کر رہے ہیں۔ تنخواہ میں غیر حاضری یا کبھی کام پر وقت پر نا آنے کی وجہ سے مسلسل کٹوتی جاری ہے اور ان کو کبھی بھی یومیہ اجرت کے مطابق تنخواہ نہیں ملی ہے۔

'میرے 3 بچے ہیں اور میں ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا ہوں جہاں مجھے اپنے بل ادا کرنے ہوتے ہیں۔ کم تنخواہ کی وجہ سے اس مہنگای میں میرے لئے گزارا کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے"۔

نصیر مسیحی تقریباً دس سال سے شکر گڑھ میونسپل کمیٹی میں یومیہ اجرت پر کام کر رہے ہیں۔ وہ سارا مہینہ دن رات کام کرتے ہیں  لیکن ان کا کہنا ہے کہ اسے وقت پر تنخواہ نہیں ملتی۔

'آج مہینے کی 12 تاریخ ہے اور مجھے ابھی تک میری ادائیگی نہیں ملی۔ میری ادائیگی میری تنخواہ کے آرڈر آنے کے مطابق جاری کی جائے گی۔ اور اگر میرے آرڈر نہیں آتے ہیں تو مجھے میرے پچھلے کام کی ادائیگی نہیں کی جائے گی اور بس اگلے بیس دن کی تنخواہ دے دی جائے گی"۔

عید کی چھٹیوں سے بھی تنخواہ میںکٹوتی

صابر اور نصیر کہتے ہیں کہ ہم عید کے تین دن لگاتار کام کرتے ہیں لیکن ہمیں اس کا کبھی انعام یا بونس نہیں ملا۔ ان کے مطابق "دوسرے شہروں میں سب کو عید پیکج ملتا ہے لیکن ہمیں کبھی نہیں ملا"۔ ایسٹر پر بھی انہیں کچھ نہیں ملا نہ کیک کاٹنے کی تقریب ہوئی۔ چرچ میں کوئی بھی ان کے ساتھ جشن منانے نہیں آیا۔

"تقریباً تین دن تک ہم عید الفطر اور عید الاضحی پر بغیر کسی وقفے کے دن رات کام کرتے ہیں لیکن ہمیں اس کام کے لیے کبھی کچھ نہیں ملا۔ جب بھی ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا انعام کہاں ہے تو وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ انہیں یہ نہیں ملا۔    

اور یہ مسئلہ نہ صرف یومیہ اجرت والوں کا ہے بلکہ ان سینیٹری ورکرز کا بھی ہے جو مستقل ہیں۔ انہوں نے کہا  "کوئی اس دن کی تنخواہ کیوں کم کرے گا جس دن آپ اپنی عید منائیں گے؟ یہ دوسری سرکاری اور نجی ملازمتوں کے ساتھ نہیں ہوتا ہے۔"

پنجاب میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے کی تنخواہ کم از کم 25000 روپے ہے۔ اور سینیٹری ورکرز کی بھی یہی تنخواہ ہے لیکن ان کی تنخواہ کو غیر حاضری کا نام دے کے کاٹ دیا جاتا ہے۔

اسی طرح ناصر مسیحی - ایک 27 سال کا نوجوان لڑکا جو زیادہ تر اداس، ناامید، کھویا ہوا اور ہر وقت الجھا ہوا نظر آتا ہے۔

وہ شکر گڑھ میں کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔ اس کی 4 بیٹیاں ہیں جن کی عمریں 10، 6، 5 اور 3 سال ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اسکول نہیں گئی۔ اس نے 12 سال شکرگڑھ میں  کام کیا اور 2010 میں مستقل ہو گیا۔ مستقل ہونے کے باوجود وہ اپنی تنخواہ اور کام سے خوش نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں، "ہماری ملازمت میں چھٹی کی وجہ سے تنخواہ میں کٹوتی بہت بدقسمتی کی بات ہے۔ اس کی وجہ سے میں گزارہ کرنے سے قاصر ہوں۔ پچھلے مہینے مجھے صرف 16000 ادا کیے گئے۔مجھے نہیں معلوم کہ ان دنوں کوکنگ آئل کی قیمت 500 ہونے کے بعد دوسری چیزیں کیسے خریدوں"۔

انتظامیہ کا رویہ

ڈپٹی کمشنر نارووال شاہ رخ خان نیازی نے بتایا کہ سینٹری ورکرز شکرگڑھ کے مسائل اسسٹنٹ کمشنر شیزا رحمان کے ماتحت ہیں۔  انہوں نے تحریری درخواست پر اسسٹنٹ کمشنر شیزا رحمان کو سینٹری ورکرز شکر گڑھ کے مسائل قانون کے مطابق دیکھنے کا حکم دیا۔

اسسٹنٹ کمشنر شیزا سے جب سوال کیا گیا کہ کیا انہیں گزشتہ دنوں سینٹری ورکرز شکر گڑھ کی جانب سے کوئی شکایت موصول ہوئی ہے تو انہوں نے یکسر انکار کر دیا۔

جب کہ کرامت مسیحی نے کچھ دن پہلے ہی ایک درخواست دی تھی جس میں انہوں نے اپنے ساتھ غیر امتیازی سلوک کے بارے میں بتایا تھا۔

شیزا رحمان نے کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے تحصیل میونسپل کمیٹی کے سی او کو مسئلہ ریفر کر دیا۔

جب میونسپل کمیٹی شکر گڑھ سے سینٹری ورکرز شکر گڑھ کے لیے حفاظتی کٹس کے بارے میں آر ٹی آئی میں پوچھا گیا۔ انہوں نے اہم سوالات کو چھوڑ دیا اور غیر متعلقہ معلومات کا اشتراک کیا۔

افضل نومی کے مطابق، 'میونسپل کمیٹی شکر گڑھ کے پاس سیفٹی کٹس ہیں '۔لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے سینٹری ورکرز کو وہ حفاظتی کٹس فراہم کی گئیں۔

کتنے سینیٹری ورکرز کے پاس وہ ابھی بھی موجود ہیں اور کتنی کتنی بار ان کو حفاظتی سامان دیا گیا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ”شکر گڑھ  میں سینیٹری ورکرز کے ساتھ کبھی کوئی حادثہ نہیں ہوا"۔

کل سینیٹری ورکرز کے بارے میں آر ٹی آئی کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ تقریباً 14 سینیٹری ورکرز ہیں جو مستقل ہیں اور 19 سینیٹری ورکرز ہیں جو روزانہ اجرت پر ہیں۔

انہوں نے سینیٹری ورکرز کے عید بونس کے سوال پر بھی جواب نہیں دیا۔