شہباز شریف صاحب ووٹر کو عزت دو

شہباز شریف صاحب ووٹر کو عزت دو
کہتے ہیں کہ پنجاب میں ’ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ بہت مقبول ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے ڈسکہ، خوشاب، وزیر آباد، ہر جگہ حکومتِ وقت کو ضمنی انتخابات میں شکست دی۔ حد تو تب ہوئی جب اس نے پہلی بار نوشہرہ میں بھی ایک ضمنی انتخاب جیت لیا۔ اب خٹک خاندان میں کیا لڑائی تھی، تھی بھی یا نہیں، اس سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ حکومت کے لئے ایک بڑا دھچکہ تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یوسف رضا گیلانی اسلام آباد کی سیٹ سے سینیٹ کا انتخاب جیتے تو اس کے پیچھے بھی مسلم لیگ ن کی ٹکٹ کا وعدہ ہی تھا۔ مریم نواز جہاں جاتی ہیں، عوام بڑی تعداد میں ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب ہوتے ہیں۔ نواز شریف گوجرانوالہ جیسے پنجاب کے دل میں تقریر کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے بڑوں کے نام لے کر تنقید کرتے ہیں اور اس تنقید پر عوام جوش سے نعرے مارنے لگتے ہیں تو یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس کا شاید آج سے چند سال پہلے کوئی خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔

آپ پاکستان کے تمام سابق آمروں کی تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں، سب آپ کو یہی کہتے دکھائی دیں گے کہ وہ تو اقتدار میں آنا نہیں چاہتے تھے لیکن سویلین حکومت نے حالات اتنے خراب کر ڈالے تھے کہ انہیں بامر مجبوری اقتدار پر قبضہ کرنا پڑا۔ ایوب خان نے اقتدار سنبھالا تو اس کی وجہ ملک کی ابتر سیاسی صورتحال اور بدانتظامی کو قرار دیا۔ ضیاالحق سیاسی جماعتوں کی آپسی لڑائی کی وجہ سے پیدا ہوئی غیر یقینی کی صورتحال کو ختم کرنے اور نوے دن میں انتخابات کروانے کا اعلان کر کے حکومت میں آئے تھے لیکن آپ ان کی بھی چند ماہ بعد کی تقاریر دیکھیں تو وہ بھٹو حکومت پر کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات ہی لگاتے نظر آئیں گے۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر شب خون مارا تو پہلے دعویٰ یہی کیا کہ نواز شریف ان کو انڈیا کے حوالے کرنا چاہتے تھے، اس لئے انہوں نے حکومت پر قبضہ کر لیا لیکن ان کی ابتدائی تقاریر اور 7 نکاتی ایجنڈے میں بھی ’اچھی حکومت‘ قائم کرنے کے وعدے وعید ہی تھے۔ فوجی حکومتوں کا بنیادی منترا یہ رہا ہے کہ یہ ’bloody civilians‘ ٹھیک سے حکومت نہیں چلا سکتے۔

کوئی مانے یا نہ مانے، شہباز شریف نے 2008 سے 2018 تک پنجاب میں جس انداز میں حکومت کی، اس نے یہ myth توڑ دیا ہے۔ اس شخص نہ یہ ثابت کر دیا کہ سویلین حکومت چلا سکتے ہیں۔ خود عمران خان حکومت پانچویں جماعت کی نئی ٹیکسٹ بک میں ’پکیاں سڑکاں سوکھے پینڈے‘ جیسے منصوبوں کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شہباز شریف کے فیصلے اور اقدامات قبولیتِ عام رکھتے تھے۔ خواہ وہ پنجاب بھر میں سڑکوں کا جال بچھانا ہو، پبلک ٹرانسپورٹ کو عوام کے لئے سہل بنانا ہو، شہروں میں گندگی اور کوڑے کی صفائی کو یقینی بنانا ہو، یا پانچ سال میں 10،400 میگا واٹ بجلی کے نئے کے کارخانے لگانا ہو، ان تمام کاموں کا کریڈٹ شہباز شریف کو ہی جاتا ہے۔ یہی وہ منصوبے تھے جنہوں نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ ممکن بنایا۔ یہ منصوبے اور گورننس نہ ہوتے تو عوام کو ووٹ کو عزت دینے کی کوئی وجہ سمجھ نہ آتی۔ کوئی لاکھ کہے کہ نظریہ اتنا خوبصورت تھا کہ عوام کے دلوں میں گھر کر گیا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر محض نظریے کا حسن کافی ہوتا تو اتنے برسوں میں پہلے کبھی یہ نظریہ مقبول کیوں نہ ہوا؟ گورننس میں بہتری سے ہی جمہوریت پر عوام کا اعتماد بحال کرنا ممکن تھا۔ ان سے پہلے جس کسی نے بھی کچھ کر کے دکھایا اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے کر کے دکھایا۔ مسلم لیگ نواز کے آخری دور میں ’اسٹیبلشمنٹ کے باوجود‘ بہتر کارکردگی دکھا کر شہباز شریف نے مارشل لا کا راستہ بند کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔

ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ طیب ارووان کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں کہ سیاسی طور پر مضبوط تب ہی ہوا جا سکتا ہے جب آپ گورننس اور معیشت پر توجہ دیں۔ بیس، پچیس سال مسلسل عوام کو ڈلیور کریں، ان کا معیارِ زندگی بہتر کریں، تب عوام آپ کی خاطر میدانِ عمل میں اترنے کو تیار ہوں گے، جیسے 2016 میں ترکی کے عوام نے سڑکوں پر آ کر مارشل لا کو ناکام بنایا۔

ان کی یہ سوچ درست ہو سکتی ہے لیکن شہباز شریف ایک سیاست کا ایک بنیادی اصول فراموش کر رہے ہیں۔ اچھی گورننس کے ذریعے عوام کے دلوں میں گھر کرنا ممکن ہے مگر اپوزیشن میں رہتے ہوئے اچھی گورننس کیسے دکھائیں گے؟ موجودہ دورِ حکومت میں کچھ کورونا وائرس کی تباہ کاریاں، کچھ پچھلی حکومتوں کی کارستانیاں بھی شامل رہی ہوں گی لیکن اس حکومت کی نااہلی ہی دراصل اس کی غیر مقبولیت کی اصل وجہ رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لاکھوں لوگ پچھلے تین سالوں میں بے روزگار ہوئے ہیں۔ مڈل کلاس تیزی سے سکڑی ہے جب کہ پچھلے دس سالوں میں یہ پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھی تھی۔ 2015 میں پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے افراد 25 فیصد تھے، آج 40 فیصد ہیں۔ کاروباری طبقہ ناراض ہے۔ سرکاری ملازمین کی لگاتار دو سال بجٹ میں تنخواہیں نہیں بڑھائی گئیں۔ اسی دورِ حکومت میں نریندر مودی کو کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ بنانے کی جرأت ہو سکی اور ہمارا جواب اپنے ہی عوام کو دھوپ میں کھڑا کرنا تھا۔

ان تمام معاملات کو لے کر عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ لوگ اپنے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار ہیں۔ ان میں اس حکومت کے خلاف غم و غصہ ممکن ہے اس نہج پر ابھی نہ پہنچا ہو کہ وہ سڑکوں پر آ کر جلاؤ گھیراؤ شروع کر دیں، جس میں ہمارے میڈیا کی جانب سے مسلسل ’مثبت رپورٹنگ‘ کا بھی بڑا عمل دخل ہے، مگر وہ یقیناً یہ چاہتے ہیں کہ کم از کم اپوزیشن ان کے جذبات کی ترجمانی کرے۔ شہباز شریف اپوزیشن لیڈر ہیں۔ کم از کم مجھے یاد نہیں پڑتا کہ آخری بار میں نے کب ان کا ایسا بیان پڑھا تھا جسے دیکھ کر میں نے سوچا ہو کہ آج رات تو خان صاحب کو نیند نہیں آئے گی۔ کشمیر کے موضوع پر شہباز شریف صاحب نے بھارت کو لتاڑا، گویا وہ پاکستان کے وزیر اعظم ہوں۔ یہ کام تو عمران خان بھی کر رہے تھے۔ معاشرے کے اس حصے کا کیا جو یہ سمجھتا تھا کہ اس میں پاکستانی حکومت کی کمزوری بھی ایک وجہ تھی؟ شہباز شریف صاحب وزیر اعظم کو مشورے دے رہے تھے۔

انتقام زدہ احتساب کو لے لیجئے۔ مسلم لیگ ن کے تمام صف اول کے لیڈران گذشتہ تین سالوں میں مختلف مواقع پر گرفتاری اور قید و بند کی صورتحال سے گزر چکے ہیں۔ نواز شریف، خود شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، خواجہ آصف، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، یہاں تک کہ رانا ثنااللہ پر تو 15 کلو ہیروئن ڈال کر ان پر پھانسی کا مقدمہ بنا دیا گیا۔ ان سب باتوں پر مسلم لیگی ورکر میں غم و غصہ ہے۔ اس کے PTI کے دوست اس کا محلے میں منہ چڑاتے ہیں، اس کا ٹھٹہ اڑاتے ہیں، کہ تمہارے لیڈروں کو پکڑ کے اندر کر دیا ہے خان نے۔ وہ جواب دینا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ اس کے پاس ایک ایسا منہ توڑ جواب ہو جو اس کے دوستوں کی بولتی بند کرا دے۔ وہ جواب اسے جو بھی فراہم کرے گا، وہ اسی کو اپنا لیڈر مانے گا۔ وہ دیکھتا ہے کہ مریم نواز جلسے میں کھڑی ہو کر عمران خان کو لتاڑ رہی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ عمران خان کی ٹوئیٹ پر قوٹ ٹوئیٹ کے ذریعے مریم اس کو ایسا کرارا جواب دیتی ہے کہ ن لیگی ووٹر کے دوست اس رات کھوکھے پر کھڑے ہو کر سیاست پر بات ہی نہیں کرتے، کسی پرانی محبت کا قصہ نکال کر بیٹھ جاتے ہیں، تو وہ ان کی بے بسی پر ان کا مذاق اڑا کر خوش ہوتا ہے۔

اب ایسے میں شہباز شریف صاحب کامران خان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہیں کہ عمران خان تو خطوط میں مجھے میرے منصب سے بھی مخاطب نہیں کرتے، میں پھر بھی دل پر پتھر رکھ کر تمام آدابِ تکلم و تخاطب ملحوظ رکھ کر جواب دیتا ہوں، تو ووٹر کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ کیا اس بیچارے کو اپنی کم مائیگی کا احساس نہیں ہوتا ہوگا؟ وہ نہیں کہہ رہا کہ جا کر کسی جرنیل کے گریبان کو ہاتھ ڈال دو۔ لیکن عمران خان کو تو بے نقط سنائی جا سکتی ہیں۔ اسے وہ شہباز شریف یاد نہیں آتا ہوگا جو کہتا تھا زر بابا اور چالیس چوروں کے پیٹ سے پیسے نکالے گا؟ وہ شہباز شریف راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل، چینی سکینڈل، دوائیاں سکینڈل، ایل این جی سکینڈل، آئی پی پی سکینڈل پر کسی کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کیوں نہیں کر رہا؟ زرداری صاحب نے تو کوئی ایسا ظلم بھی نہیں ڈھایا تھا، یہ حکومت تو کوئی 400 دن جیل میں رکھ چکی ہے۔ حمزہ کو 20 مہینے جیل میں رکھا۔ بیگم نصرت شہباز کو عدالتوں کے چکر لگوائے۔ بیٹی کو کیمروں کے سامنے عدالت میں پیش ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔ بھتیجی کو قید میں موجود بھائی کے سامنے سے گرفتار کر لیا۔ شہباز شریف اپوزیشن لیڈر ہے۔ بولتا کیوں نہیں؟ عمران خان کو احترام سے کیوں بلاتا ہے؟ مینارِ پاکستان کے باہر کیمپ لگا کر کیوں نہیں بیٹھتا کہ جب تک میری قوم کے لوگ اس گرمی میں سونے جتنی مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہیں، میں بھی یہیں بیٹھا ہوں؟

ن لیگی ووٹر یہ سوال کرتا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑو۔ وہ آپ کی بات مان لے گا کہ اگر لڑے تو 80 فیصد لوگ پارٹی چھوڑ جائیں گے۔ لیکن کیا عمران خان پر تنقید سے بھی 80 فیصد لوگ پارٹی چھوڑ جائیں گے؟ وہ کہتا ہے چھوڑتے ہیں تو چھوڑ جائیں، ہماری بات تو کرو، ہم نے تمہیں 1 کروڑ 28 لاکھ ووٹ دے کر ایوان میں بھیجا ہے۔ ان دو ٹکے کے لوٹوں کے ہاتھوں بلیک میل ہی ہونا ہے تو ہم ووٹ کیوں دیں؟ مت مانگو اسٹیبلشمنٹ سے ہمارے ووٹ کی عزت، خود تو عزت دو!

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.