وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف دائر درخواستوں کو خارج کرنے اور کیس کی سماعت کےلیے فل کورٹ بنانے کی استدعا کردی۔
سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق کیس میں بل کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں کے خلاف وفاقی حکومت نے 8 صفحات پر مبنی جواب عدالت عظمیٰ میں جمع کروا دیا۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ قانون کے خلاف درخواستیں انصاف کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہیں۔ قانون کو چیلنج کرنے کیلئے درخواست گزاروں کی نیت صاف نہیں۔ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر کوئی قدغن نہیں۔
وفاقی حکومت نے مزید کہا کہ ماسٹر آف روسٹر کے تصور کو قانونی تحفظ حاصل نہیں۔ اس قانون سے چیف جسٹس کے آئین کے آرٹیکل 3/183 کا اختیار ریگولیٹ ہو گا۔مجوزہ قانون سے عدلیہ کے اختیارات میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔
جواب میں مزید کہا گیا کہ قانون میں آرٹیکل 184/3 کے اختیار میں اپیل کا حق دیا گیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 10A بھی فئیر ٹرائل کا حق دیتا ہے۔ آرٹیکل 184/3 میں نظر ثانی کا اختیار بڑا محدود ہے، اور فئیر ٹرائل کیلئے اپیل کا حق ضروری ہے۔
وفاقی حکومت نے مقدمے میں فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے اس حوالے سے متفرق درخواست دائر کردی۔
حکومت نے کہا کہ عدالت کے سامنے پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار، عدلیہ کی آزادی اور اداروں کی اختیارات کی تقسیم کے آئینی سوالات ہیں۔ سپریم کورٹ قانون کیخلاف درخواستیں اہم نوعیت کا آئینی معاملہ ہے۔ماضی میں آئینی نوعیت کے ایسے مقدمات کیلئے فل کورٹ بینچ تشکیل دئیے گئے۔اس مقدمہ میں بھی آئینی نوعیت کے سوالات اٹھائے گئے۔
حکومت نے کہا کہ فل کورٹ استدعا کا مقصد کسی جج کو شامل کرانا نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے تمام ججز پر وفاق کا اعتبار ہے۔ لہذا مقدمے میں سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے عدالتی اصلاحات بل پر 2 مئی کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر پر حکم امتناع تاحکم ثانی برقرار رہے گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے عدالتی اصلاحات بل (سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر) پر 2 مئی کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
حکم نامے میں واضح کیا گیا ہے کہ عدالتی اصلاحات بل پر دیا گیا حکم امتناع تاحکم ثانی برقرار رہے گا۔