شیزہ مشتاق کہتی ہے کہ جب میں نے منصوبہ بندی شروع کی تو بہت تنقید کا سامنا تھا کہ تم کیسے کروگی یہ تو مردو ں کا معاشرہ ہے یہاں تمھیں کام نہیں کرنے دیا جائے ، تم کیفے کھولوں گی تو تمھیں چینی لانی ہوگی، تمھیں چائے لانی ہوگی ، تمھیں چکن لانے ہوگی ، تم یہ کام نہیں کرپاوگی مطلب ہر جگہ سے تنقید کا سامنا تھا جس سے میری ہمت کم پڑے اور ارادہ کمزور ہوجائے ۔ وہ مانتی ہیں کہ میں کئی جگہوں پر کمزور پڑگئی مگر میں دوبارہ سے ہمت کرکے اُٹھ جاتی تھی اور آخر میں اس کوشش میں کامیاب ہوگئی۔ وہ کہتی ہیں ہمارے سماج میں لڑکیوں کو ایک نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ اگر وہ گھر سے نکلتی ہے تو وہ خراب ہے۔