پریانتھا دیاودھنہ کے قتل کے پس پردہ حقائق

پریانتھا دیاودھنہ کے قتل کے پس پردہ حقائق
جمعہ کے روز سیالکوٹ میں ایک ایسا المناک سانحہ پیش آیا جس کے بعد ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھُک گیا۔ ہر باضمیر انسان اشکبار ہے۔ بطور تحقیقاتی صحافی مقتول کے دوستوں اور سیالکوٹ کے باسیوں سے واقعہ کے پس پردہ حقائق جاننے کی کوشش کی۔ فیکٹری ملازمین اور دوستوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کچھ معلومات شئیر کیں جو آپ پاکستانیوں تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔

پریانتھا دیاودھنہ کا تعلق سری لنکا سے تھا۔ وہ اپنے دو انجینئر بھائیوں سمیت 2010ء سے پاکستان میں مقیم تھا۔ وسنتھا کمار اب بھی پاکستان میں بطور انجینئر خدمات انجام دے رہے ہیں، جبکہ کمالا نے چند سال قبل پاکستان چھوڑ دیا تھا۔

یہ وہی انجینئر کمالا ہیں جو میڈیا میں سری لنکا سے اپنے بیانات بھی جاری کر رہے ہیں۔ 2010ء میں وسنتھا نے فیصل آباد کی کریسنٹ ٹیکسٹائل ملز کو جوائن کیا۔ ایک سال بعد لاہور سٹائل ٹیکسائٹل میں رہے۔ بعد ازاں دو سال بعد 2103ء میں سیالکوٹ میں راجکو فیکٹری کو بطور جی ایم پروڈکشن جوائن کیا۔ ان کی فیکٹری مالک اعجاز بھٹی سے دوستی اس وقت مضبوط تر ہو گئی، جب 2013ء کے بعد ان کی فیکٹری پروڈکشن سات گنا بڑھ گئی۔

فیکٹری مالک کو سات گنا زیادہ پرڈوکشن ملنے پر فیکٹری کے تمام لین دین کے معاملات اور اختیار مالک کے بعد ان کے ہاتھ میں تھے۔ پریانتھا دیاودھنہ کے بعد راجکو فیکٹری نے اس قدر ترقی کی پاکستان کرکٹ بورڈ نے قومی ٹیم کی یونیفارم بھی 2015ء سے تاحال یہاں سے بنوائیں۔ اس کے علاوہ دیگر کلبز کے جیکسٹس، ٹرائوزر، ٹریک سوٹس سمیت دیگر اہم مصنوعات یہاں سے بنتی ہیں۔

پریانتھا دیاودھنہ نے فیکٹری ملازمین کو فلور پر کام کرنے کے لیے بطور ٹرینر بھی کام کرنا شروع کر دیا تھا اور اپنی دی گئی ٹریننگ پر اس قدر مطمئن تھے کہ ورکرز سے کسی غلطی کا امکان کم ہی ہوتا تھا۔

وہ بطور پروفیشنل انجینئر اپنے کام کے ساتھ بہت مخلص تھے۔ آٹھ سال میں صرف تین بار ہی سری لنکا جا پائے تھے۔ پاکستان میں رہنے کے دوران اردو اور پنجابی کے چند جملے  بول سکتے تھے تاہم لکھ یا پڑھ نہیں سکتے تھے۔

پریانتھا دیاودھنہ نے بطور مینجر فیکٹری میں ویمن امپاورمنٹ کے لیے بہت کام کیے۔ ان کے لیے الگ گاڑیاں، ہال اور سہولیات کا انتظام کیا۔ اگر کوئی خاتون بیمار ہو جاتی تو اسے ہسپتال پہنچانے کے لیے اپنی گاڑی  بھی دے دیتے تھے۔

ان کے ایک قریبی دوست نے بتایا کہ ایک بار فیکٹری کی ایک خاتون ورکر اور اس کی دو بہنوں کے جہیز کے سامان میں بڑی رقم کی مشکل پیش آئی تو انھوں نے اپنی تنخواہ سے ان کی امداد کی تھی۔ اسی طرح ایک بار عید کے موقع پر فیکٹری ملازمین کی تنخواہ کا انتظام نہ ہوا تو ان کے دوست ملک عدنان اور پریانتھا دیاودھنہ نے اپنی ذاتی اخراجات سے 10 لاکھ کا انتطام کیا تھا۔

اگر بات کی جائے پریانتھا دیاودھنہ  کی مذہبی رجحانات کی تو وہ بدھ مت مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ مسلمانوں کے تمام مذہبی تہواروں کا احترام کرتے تھے۔ بدھ مت اور اسلام کے تقابل میں ان کا موقف تھا کہ اسلام اور بدھ مت میں پانچ احکام مشترک ہیں اور یہ دونوں مذاہب ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ وہ شاید مذہبی آہنگی پر یقین رکھتے تھے۔ مسلمانوں کے تمام تہواروں کا احترام کرتے تھے، حتیٰ کہ گذشتہ چار سال سے ماہ رمضان المبارک میں فیکٹری ملازمین کیلئے افطاری کا اہتمام بھی کیا۔

اب اگر بات کی جائے ملک عدنان کی تو ملک عدنان نے چند سال قبل ہی فیکٹری کو جوائن کیا تھا۔ ان کے فیکٹری میں آنے کے بعد ان کی پریانتھا دیاودھنہ سے دوستی فیکٹری کی حد تک نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر مضبوط ہوگئی۔ مینجرز کی سالگرہ کے موقع کی خصوصی تقاریب کا اہتمام پریانتھا دیاودھنہ کی جانب سے کیا جاتا تھا۔ جس میں تمام لوگوں کو مدعو کیا جاتا تھا۔

پریانتھا دیاودھنہ چونکہ اپنے کام سے مخلص تھے اور ورکرز کی چھٹیوں اور کام چوری پرنالاں رہتے تھے، اس لئے وہ کبھی کبھار اونچا بول لیتے تھے لیکن گالیوں تک نوبت نہیں آتی تھی۔

فیکٹری کی ذمہ داریاں اور کئی سال سے گھر نہ جانے کے باعث وہ ذہنی دبائو کا بھی شکار تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ورکرز کے ساتھ اونچا بھی بولتے تھے۔

فیکٹری میں ورکرز کا ایک گروپ ان کا شدید مخالف تھا اور وہ ان کو منیجر کی سیٹ پر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ پریانتھا دیاودھنہ نے کام چوری اور چھٹیوں کی بنیاد پر کئی ورکرز کو فارغ جبکہ کئی ملازمین کا کام عارضی طور پر بند کر دیا تھا۔ 2013ء سے 2020ء تک راجکو فیکٹری سے پریانتھا دیاودھنہ کے حکم پر درجنوں افراد نکالے جا چکے تھے۔

3 دسمبر کو کیا ہوا؟

پریانتھا دیاودھنہ نے 2 دسمبر کو سپروائزر کو فیکٹری کی صفائی کے احکامات جاری کیے اور یہ بھی کہا کہ مشینوں اور دیواروں سے سٹیکرز کو اتار دیں۔ اس نے اتروا دئیے لیکن ایک ورکر نے اسے دوبارہ لگا دیا جس پہ تحریر تھا کیا آج آپ نے درود شریف پڑھا؟۔

جمعہ کی صبح کو فلور پر صفائی کی چیکنگ کے دوران جب مینجر پریانتھا دیاودھنہ نے سٹیکر لگے دیکھے تو خود ہی اتار دئیے اور ورکرز پر غصہ کیا۔

سپروائزر نے ورکرز کو فیکٹری کے اسی میدان میں جمع کیا جہاں وہ اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے جمع ہوتے تھے۔ بہت سے افراد نے مداخلت کی تو خاموشی ہو گئی لیکن آدھے گھنٹے کے بعد ایک ہجوم جمع ہو گیا اور پریانتھا دیاودھنہ کو دفتر سے نکالنے کی کوشش کی۔

اس ہجوم میں وہ افراد بھی شامل ہو گئے جو 2013ء سے 2020ء تک نکالے گئے تھے۔ انہیں ان کے فیکٹری میں موجود دوستوں اور عزیزوں نے بلوا لیا تھا۔

ملک عدنان نے ان کی منت سماجت کی اور یقین دہانی کروائی کہ وہ فیکٹری سے چلے جائیں گے اور مقدمہ درج کروا دیا جائے لیکن ہجوم ہٹ نہیں رہا تھا۔

پریانتھا دیاودھنہ نے ملک عدنان کو معافی کی پیشکش کی۔ ملک عدنان نے پریانتھا دیاودھنہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ معافی کو قبول نہیں کریں گے، آپ یہاں سے اسی وقت چلے جائیں تو معاملہ  پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پریانتھا دیاودھنہ کا جواب تھا کہ وہ یہاں آٹھ سال سے کام کر رہے ہیں۔ میں ایک ایماندار شخص ہوں، مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک مقدس سٹیکر ہے، میں معافی مانگنے کو تیار ہوں لیکن بھاگنے کو نہیں۔ ملک عدنان نے انہیں چھت پر چھپایا مگر وہ اس جتھے کے ہاتھ لگ گئے۔

بدقسمتی سے اس روز فیکٹری مالک بیرون ملک نجی دورے پر تھا جس باعث ملازمین نے انتہائی قدم اٹھایا۔ البتہ مالک کی غیر موجودگی میں شہباز بھٹی نے ہاتھ جوڑے منت سماجت کی جیسا کہ آپ نے ویڈیوز میں بھی دیکھا وہ ایک شخص کو کھونے سے ڈر رہے تھے جس نے ان کی فیکٹری کو پہلے کی نسبت آٹھ سال میں سات گنا منافع دیا تھا۔

فیکٹری میں عمومی طور پہ لڑائی جھگڑوں میں پیش پیش رہنے والے امتیاز بلی، طلحہ نے لوگوں کو اشتعال دلایا اور لاش کو فیکٹری کے باہر جاکر آگ لگا دی۔ جلانے کے بعد فیکٹری ورکرز فون کالز پہ ایک دوسرے کو مینجر واصل جہنم ہو گیا کے میسجز کرتے رہے۔

سانحہ سیالکوٹ جیسے افسوسناک واقعات نے شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی پر پھر سے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد منظور ہونے والے نیشنل ایکشن پلان کے 20 میں سے صرف 9 نکات پر 7 سال بعد بھی عمل نہیں ہوسکا۔ انتہاپسندی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اگر ان کی روک تھام نہ کی گئی تو مذہب کے نام پر عدم برداشت کا رویہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔