بلوچستان: کوئلہ کی کانوں میں کان کنوں کی اموات کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ

بلوچستان: کوئلہ کی کانوں میں کان کنوں کی اموات کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ

بلوچستان کے کوئلہ کے کانوں میں گیس بھر جانے کے سبب دھماکے و دیگر حادثات کے دوران بڑھتی ہوئی شرح اموات سے مزدوروں کے بنیادی حقوق اور ان کے تحفظ کے بارے میں کئی خدشات جنم لے رہے ہیں۔ فقط دو وقت کی روٹی اور اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کیلئے ’کان کن‘ اندھیروں کی دنیا میں تو چلے جاتے ہیں، مگر کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ اپنے پاﺅں پرسلامت آئیں گے یا ان کی لاش کو کوئی کندھا دے کر کان سے باہر لائے گا۔ یہ 42 سالہ خدائیداد کی روداد ہے جو بلوچستان کے مقامی کوئلہ کان میں بطورکان کن کام کرنے والے خدائیداد خان کے والد محمد گل بھی بطورمائن سردار کام کرتے تھے، محمدگل معمول کے مطابق مزدوروں کے مسائل حل کرنے کیلئے معائنہ کرنے کیلئے سفرکررہے تھے کہ ان کی جیپ گہری کھائی میں گرگئی جس سے وہ اور ان کے 2 دوست جاں بحق ہو گئے۔

سنجدی میں ہسپتال قائم کرکے وہاں پر43 کے لگ بھگ عملہ تعینات کیا گیا ہے مگرصرف دو یا تین افراد ڈیوٹی پر موجودہوتے ہیں، ہسپتال میں ہنگامی صورتحال کیلئے کوئی ادویات اورآلات دستیاب نہیں ہیں کوئی حادثہ رونما ہو تو ہم مزدورشہرکارخ کرتے ہیں۔ اورسڑک نہ ہونے کی وجہ سے اکثرمزدوردوران سفرلقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

اپنے ساتھی شاہ زَرین‘ نامی کان کن کے موت کی کہانی سناتے ہوئے خدائیداد خان نے بتایا کہ اگست کا مہینہ تھا جب مزدور کوئلہ کان میں کام کر رہے تھے ، اس دوران ٹیلے کی رسی ٹوٹ گئی ، شیرین زادہ اور ٹیلے کو اٹھانے کی کوشش کررہے تھے کہ اس دوران وہ نیچے گرگئے اور ٹیلہ لگنے سے ان کے سر پر گہری چوٹ آئی، (ٹیلہ ٹریک پرچلنے والی ایک چھوٹی سی گاڑی ہے جس کو کان کن اپنا سامان لے جانے علاوہ خودکوئلہ کان میں جانے کے لئے استعمال کرتے ہیں)۔ سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں چارپائی پہ لٹا کر علاج معالجہ کیلئے کوئٹہ منتقل کیاگیا، ایک ہفتے تک سول ہسپتال کے ٹراماسینٹرمیں زیرعلاج رہنے کے بعد وہ زندگی کی بازی ہارگئے۔ انہوں نے بتایا کہ کوئلہ کے کانوں میں گھِس جانے کے بعد پرانی ’رسی ‘ کو گریس لگا کر دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے جس سے رسی ٹوٹنے کے واقعات میں متعدد مزدور جاں بحق ہو جاتے ہیں۔

پاکستان ورکرز فیڈریشن کے اعدادوشمار کے مطابق بلوچستان میں 3500 سے زائد کوئلہ کان موجودہیں جہاں ڈیڑھ سے دولاکھ تک مزدورکام کرتے ہیں۔ پاکستان ورکرزفیڈریشن کے جنرل سیکریٹری پیر محمد کاکڑ سمجھتے ہیں بلوچستان میں کان کنوں کی بڑھتی اموات کی وجہ یہاں سوسالوں سے زیادہ عرصے کا پرانا اورفرسودہ مائننگ کانظام بھی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ حکومتی سنجیدگی اوراقدامات کااندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ اب بھی 98 سال پرانا”بلوچستان مائنز ایکٹ1923“ لاگو ہے اوراس پر بھی عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔

مائننگ ایریا میں قائم چھوٹی ڈسپنسریوں میں ادویات عدم دستیاب ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چھوٹی دکانوں میں ڈسپنسریاں قائم کی گئی ہیں جہاں ایمبولینس موجود نہیں ہے اورنہ صحت کی سہولیات دستیاب ہیں ، گردغبار کی وجہ سے کان کنوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کم سے کم 10 یا زیادہ سے زیادہ 15 سال کے بعد مزدورکان میں کام کرنے کے قابل نہیں رہتا اس کے پھیپھڑے اور گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، اس کے بعد بھی کوئی کام پہ چلا جائے تو وہ مرجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کوئلہ کے کانوں میں سالانہ 250 کے لگ بھگ افراد جان کی بازی ہارجاتے ہیں، تین سوکے لگ بھگ زخمی ہوجاتے ہیں۔ فیڈریشن کے اعداد و شمارکے مطابق 2019 میں 196 اموات جبکہ 300 کے لگ بھگ زخمی ہوئے تھے۔ 2020 میں مختلف حادثات میں 240 شہید ہوگئے تھے۔ پاکستان سینٹرل لیبر فیڈریشن کے مطابق 2021 میں ملک بھر میں کانوں میں پیش آنے والے حادثات میں 176کان کن ہلاک جب کہ 180سے زائد زخمی ہوئے ہیں، ان میں سب سے زیادہ بلوچستان میں 100 سے زائد کان کن لقمہ اجل بن گئے ہیں۔

کوئلہ کانوں میں ٹھیکیداری نظام کے تحت ملازمت :

انہوں نے بتایا کہ ٹھیکیداری کانظام بھی کان کنوں کی ہلاکتوں میں اضافے کاسبب بن رہا ہے۔ محکمہ مائنزکے پاس مائننگ انجینئرزکی تعداد کم ہے جو چیک اینڈبیلنس کو قائم نہیں کرسکتے، بڑی کمپنیاں ٹھیکیداروں کو کام دیتے ہیں جو مزید چھوٹے ٹھیکیداروں کو دی جاتی ہے اور ان کے پاس گیس کوچیک کرنے کے آلات موجود نہیں ہوتے، یہ ہی نہیں چھوٹے ٹھیکیدار غیر تربیت یافتہ ورکروں کو ڈھائی سے تین ہزارفٹ گہرائی میں کام کرنے کیلئے بھیج دیتے ہیں جس سے ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

مقامی کوئلہ کانوں کے ٹھیکیدار کیا کہتے ہیں:

کوئٹہ کے مقامی کوئلہ کان کے ٹھیکیدارملک گل خان اچکزئی نے بتایا کہ کان کنوں کوتمام ضروری چیزیں فراہم کرنے کے علاوہ انہیں بروقت معاوضوں کی ادائیگی بھی کرتے ہیںتاکہ ان کے مسائل کم ہوسکیں۔ مگر اکثر اوقات کان کنوں کی اپنی لا پرواہی کے سبب حادثات رونما ہو جاتے ہیں مگرپھربھی ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کانوں میں کام کرنے والے مزوروں کو تحفظ فراہم کریں۔

کوئلہ کانوں میں حفاظتی اقدامات اورگیسزکے اخراج سے متعلق انتظامات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایاکہ چھوٹے ٹھیکیدارپیسوں کے لالچ میں آکرضروری اقدامات نہیں اٹھاتے جس کی وجہ سے حادثات کے دوران کان کنوں کی اموات واقع ہوتی ہیں۔ چھوٹے ٹھیکیدار عارضی طور پر کام کرکے کوئلہ نکالنے کے لئے حفاظتی اقدامات کئے بغیر کام شروع کرکے کان کنوں کوطفل تسلی دیتے ہیں کہ جلد گیسزکے اخراج کے لئے ہوائی اور دیگرضروری اقدامات اٹھائے جائیںگے ، چونکہ اس طرح ٹھیکیداروں کو اچھی آمدنی ملتی ہے تو وہ ایسا نہیں کرتے جس سے کان کنوں کی زندگیوں کو خدشات لاحق ہو جاتے ہیں۔

مزدوروں کے تحفظ کیلئے پاکستان ورکرز فیڈریشن کے کیا مطالبات ہیں:

انہوں نے مطالبہ کیا کہ مزدوروں کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے مائنز ورکرز کی سیفٹی اورصحت سے متعلق آئی ایل او176 کنونشن پرعملدرآمد کرکے اصلاحات لانے، ٹھیکیداری نظام کاخاتمہ کرکے کمپنیاں خود کوئلہ نکال کرکان کنوں کی رجسٹریشن، اموات کی صورت میں انہیں تلافی کی فراہمی یقینی بنانے، بلوچستان میں دوران کام مرنے والے کان کن کے لواحقین کو دولاکھ کی بجائے کے پی کے اورسندھ میں نے چھ لاکھ روپے معاوضہ دینے، ای اوبی آئی وردیگرانشورنس کمپنیوں کیساتھ کان کنوں کی رجسٹریشن کرکے کانوں میں ہوا کا چیک اینڈ بیلنس، مائنزمیں کان کنوں کو تربیت دینے کیلئے ٹیکنیکل طرزپرتربیتی مراکزکا قیام عمل میںلانے، منظم سسٹم ناکرمائنزالاٹمنٹ، مزدوروںکی معلومات، کمپنیاں، انجینئرزودیگربنیادی معلومات کاڈیٹا اکھٹا کرنے،بلوچستان میں پانچ سے چھ ہزارفٹ گہرائی تک مائننگ کی بجائے قانون سازی کرکے مائننگ کیلئے ایک حد قررکرکے اس سے تجاوز نہ کرنے پرعملد رآمد کو یقینی بنایا جائے ۔

بلوچستان کے کن علاقوں میں کوئلہ کان موجود ہیں:

سنجدی کے علاوہ بلوچستان سورینج، ڈگاری، مارواڑ، چمالنگ، دکی، ہرنائی، شاہرگ، کھوسٹ ، بولان کے علاقے مچھ و دیگر علاقوں سے کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ یہاں پرزیادہ مزدوروں کا تعلق خیبرپختونخواہ کے دیر،شانگلا، سوات ، بلوچستان کے توبہ اچکزئی، توبہ کاکڑی، قلعہ سیف اللہ، مسلم باغ، سبی اورہمسایہ ملک افغانستان سے مہاجرین اور ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد بھی کان کنی کے شعبے سے منسلک ہیں۔ باعث تشویش امریہ ہے کہ کسی محکمے کے پاس مزدوروں کا مکمل ڈیٹا موجود نہیں ہے ۔

’کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی مشکلات ‘کے بارے میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی جانب سے 2022 میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کان کنوں کی حالت زارسے متعلق تشویشناک انکشافات سامنے آئے ہیں ، رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں کوئلہ کانوں کے مزدوروں انسانی حقوق سے محرومی کا شکار ہیں۔

کان کنوں کو پہننے کیلئے حفاظتی ہیلمٹ تک فراہم نہیں کیے جاتے:

سروے کے دوران یہ انکشاف ہوا ہے کہ اکثرکان کنوں کو پہننے کیلئے ہیلمٹ بھی فراہم نہیں کیاجاتا۔ سروے کے دوران 101 کان کنوں سے بات چیت کی گئی جن میں سے صرف 25 فیصد حفاظتی ہیلمٹ پہنتے ہیں، جبکہ 75 فیصد کان کنوں کے پاس ہیلمٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے، جبکہ بہت کم تعداد میں کان کن ماسک ، دستانے و دیگرحفاظتی سامان استعمال کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان بھرمیں ایک لاکھ چھیاسی ہزارٹن کے لگ بھگ کوئلہ کے ذخائرموجودہیں جن میں سے 217 ملین ٹن بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق روزانہ 8 گھنٹے کی بجائے کان کن روزانہ 12 گھنٹے سے زائد کام کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے کوئلہ کانوں میں حفاظتی اقدامات نہیں ہیں، کسی ہنگامی صورتحال میں مزدوروں کو کان میں گیس بھرجانے یا دیگرحادثات کاپتہ نہیں چلتا۔

اس ضمن میں پاکستان میں کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے کیونکہ زیرزمین رونما ہونے والے بیشترحادثات رپورٹ نہیں ہوتے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ حادثات کی وجہ کانوں میں زہریلی گیسزاوردھماکہ خیزموادکا استعمال ہے ، 2010 ء میں PMDC میں رونما ہونے والے حادثے میں 48 کان کن جاں بحق ہوگئے تھے ۔

کان کنوں کو اپنی اجرت کے حصول کیلئے میلوں کاسفرکرنا پڑتا ہے:

رپورٹ کے مطابق مخدوش حالات کی وجہ سے کان کن کواپنی قلیل اجرت کیلئے بھی میلوں کا سفرکرنا پڑتا ہے، کان کن حد سے زیادہ کام کرتے ہیں اورانہیں اتنا وقت نہیں ملتا کہ وہ کھانے سے پہلے اپنے ہاتھ دھولیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اکثرمہاجرین اوردیگرصوبوں سے تعلق رکھنے والے کان کن کام کرتے ہیں جن کے پاس ضروری قانونی دستاویزات نہیں ہوتے اس لئے وہ معاوضے اورامدادی رقوم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ مزدورماہانہ 25000 ہزارروپے تک کماتے ہیں جوان کے کھانے پینے میں خرچ ہوجاتا ہے ۔

رپورٹ کے مطابق مائن لیبرویلفیئرآرگنائزیشن کے زیرانتظام تین ہائی اسکول، چھ مڈل اسکول، چھ پرائمری اسکول اوردس ڈسپنسریاں جبکہ صرف ایک ہسپتال ہے۔ ہسپتال اوراسکولوں میں اسٹاف کی شدید کمی ہے جس کیلئے فنڈزمیں اضافے کی ضرورت ہے۔

بحیثیت اپوزیشن رکن ہم مسائل کی نشاندہی کرسکتے ہیں، یہ کہنا ہے سنجدی سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی و بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی کا۔ انہوں نے بتایا کہ بارشوں اور سیلاب سے سڑکیں بہہ گئی ہیں اوراب بھی متعددعلاقوں کا کوئٹہ سے رابطہ منقطع ہے، سنجدی، مارواڑ، ہنہ اور اوڑک کے بیشتر علاقوں کے لوگ پیدل سفرکرکے مین شاہراہ تک آتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ رابطوں کو بحال کریں، انہوں نے کہا کہ محکمہ مواصلات کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو بہتر بنائے مگرحکومتی مشینری نہ ہونے کے برابر ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دوران حادثہ زخمی اورجاں بحق ہونے مائن ورکروں کے معاوضے بڑھانے اور ان کے بنیادی حقوق سے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے، مائننگ ایریا میں اسکول اور ہسپتالوں کا قیام عمل میں لانے کیلئے اسمبلی فلور پر متعدد مرتبہ آواز اٹھائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں ایک مائن میں واقعہ رونما ہوا جس میں 18 کان کن جاں بحق ہوئے، اور وہاں پر ایمبولینس نایاب تھی ، زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے کے لئے کوئٹہ سے ایمبولینس بھیج دیئے۔

ترقیاتی منصوبوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہم اپوزیشن کاحصہ ہیں اورحکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مائننگ ایریا میں بھی عوامی مفاد اور ان کے فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کرے کیونکہ یہاں پہ لوگوں کو بہت ساری مشکلات درپیش ہیں اور ہم اپوزیشن میں رہ کر ان مسائل کی صرف نشاندہی کرسکتے ہیں۔

اس ضمن میں ڈائریکٹر جنرل مائنز بلوچستان کا موقف جاننے کی کوشش کی مگر وہ اپنے دفتر میں موجود نہیں تھے۔

یحییٰ ریکی کا تعلق بلوچستان کے ضلع چاغی سے ہے اور وہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بطور صحافی کام کر رہے ہیں۔ یحییٰ ریکی نوجوانوں اور خواتین کے مسائل، تعلیم وصحت، بیروزگاری، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات ودیگر موضوعات پر اردو اور انگلش میں کالم اور فیچر لکھتے ہیں۔