Get Alerts

سیلاب سے متاثر کسانوں کو ابھی تک معاوضہ نہیں مل سکا

سیلاب سے متاثر کسانوں کو ابھی تک معاوضہ نہیں مل سکا
پاکستان میں زیادہ تر کسان جن کی فصلیں گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب میں برباد ہو گئی تھیں، ان کے پاس کسی قسم کے روزگار کا اختیار نہیں ہے جس کی وجہ سے ہزاروں کسانوں کو ممکنہ طور غربت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

چھوٹے کسان خاص طور پر خطرات کی زد میں ہیں کیونکہ نہ صرف ان کی موسم گرما کی فصلیں برباد ہو گئی تھی بلکہ اب وہ اپنی سردیوں کی فصلوں کے لئے بیج، کھاد اور دیگر سامان خریدنے کے لیے بھی جدوجہد کر رہے ہیں، کیونکہ سبھی کی قیمتیں آسمان کو چھو چکی ہیں۔

پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، جون اور اگست 2022 کے درمیان پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب میں زراعت، خوراک، مویشی اورماہی گیری کے شعبوں کو مجموعی طور پر 800 ارب روپے کا نقصان پہنچا جس سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ اور کم از کم 80 لاکھ بے گھر ہوئے۔ رپورٹ میں ان شعبوں کو تقریباً 1.98 کھرب روپے کے طویل مدتی نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

سندھ اور بلوچستان سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ حکام کی ستمبر 2022 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ تقریباً 35 فیصد گھرانے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کاشت کاری میں مصروف تھے اور 65 لاکھ ایکڑ فصلیں اور باغات متاثر ہوئے۔ اس میں سندھ میں تقریباً 48 لاکھ ایکڑ، بلوچستان میں 9 لاکھ ایکڑ، پنجاب میں 7 لاکھ ایکڑ اور خیبرپختونخوا میں ڈیڑھ لاکھ ایکڑ اراضی شامل ہے۔

جنوبی سندھ صوبے میں کسانوں کی تنظیم سندھ آبادکار ایسوسی ایشن کے ایک کاشتکار اور نمائندے سید محمود احمد شاہ نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ “ہم ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں کیونکہ ہمارے پاس نہ تو فصل کا بیمہ ہے اور نہ ہی حکومت کی طرف سے زرعی سامان پر مناسب سبسڈی دی گئی ہے۔ “

شاہ نے مزید کہا کہ ہم نے خریف(موسم گرما) کے موسم میں تقریباً 80 فیصد پیداوار کھو دی اور ربیع (موسم سرما) کی فصلوں کے بارے میں بہت زیادہ غیر یقینی صورتحال ہےکیونکہ سندھ کے بہت سے علاقوں میں پانی اب بھی کھیتی باڑی والے علاقوں میں کھڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے پیمانے پر کاشتکاری کرنے والے صرف چند کسان ہی پانی نکالنے کے لیے پمپ کرایہ پر لینے کی استطاعت رکھتے ہیں۔

شاہ نے کہا کہ یہ کاشتکاروں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے اور اس کے ملک کی غذائی تحفظ پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے۔ “اس بات کا امکان نہیں ہے کہ کسان حکومت کی خاطر خواہ مدد کے بغیر اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔”

کسانوں کے لئےفصلوں کی کوئی یونیورسل انشورنس پالیسی نہیں:

پاکستان کی وزارت قومی غذائی تحفظ اور تحقیق کے ترجمان وسیم الحسن نے کہا کہ حکومت ڈائ امونیم فاسفیٹ (ڈی اے پی) کھاد کے 50 کلو تھیلے پر 2500 روپے کی چھوٹ فراہم کر رہی ہے جس سے یہ کسانوں کے لیے مزید سَستی ہو گئی ہے۔ حکومت کی طرف سے یوریا کھاد کے 50 کلو والے 3 لاکھ تھیلے درآمد کیے گئے ہیں۔

حسن نے کہا کہ پاکستان میں “بعض مشکلات کی وجہ سے” کاشتکاری کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے والی فصلوں کی بیمہ پالیسی نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ بیمہ کمپنیاں اور بینک ایسے اقدامات کے لیے تیار نہیں ہیں اور یہ کہ حکومت کے پاس اس کا احاطہ کرنے کے لیے وسائل ناکافی ہیں۔

وزارت قومی سلامتی اور تحقیق کے سابق مشیر محمد علی تالپور نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ 2018 میں پنجاب کے چند اضلاع میں فصلوں کی انشورنس (بیمہ)کا ایک آزمائشی منصوبہ شروع کیا گیا تھا، مگر یہ بہت ابتدائی مرحلے میں ہے اور ایک محدود علاقے میں ہے۔ تالپور نے وضاحت کی کہ بیمہ کمپنیاں فصلوں کی بیمہ کاری کرنے سے گریزاں تھیں جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ فصل کے نقصان کادرست اندازہ لگانا ایک بہت مشکل کام ہے۔

پنجاب میں صوبائی حکومت نے آزمائشی منصوبے کے تحت کچھ کسانوں کی جانب سے انشورنس پریمیم (بیمہ کی اقساط) کی ادائیگی شروع کر دی ہے۔ تالپور نے مشورہ دیا کہ یہ ایک اچھا قدم ہے اور اسے دوسرے صوبوں تک بھی پھیلایا جانا چاہیے۔

حکومت کی طرف سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تعاون سے 2008 میں ایک ملک گیر قرض کی بیمہ اسکیم برائے فصل شروع کی گئی تھی تا کہ کسانوں کو زرعی مقاصد کے لیے بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضوں کا بیمہ کیا جا سکے۔ تاہم، یہ بیمہ صرف قرضوں کی قیمت تک محدود ہے، اور ان کی فصلوں کو ہونے والے مجموعی نقصان کو پورا نہیں کرتا ہے۔ دیہی علاقوں میں زیادہ تر چھوٹے کسانوں کے پاس بینک قرض تک رسائی نہیں ہے، اور اس لیے وہ اس اسکیم سے مستفید نہیں ہوسکتے۔

حسن نے اس بات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب سے فصلوں کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے پاکستان کو غذائی تحفظ کے مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گندم کے ذخیرے میں کچھ کمی گندم کی درآمد سے پہلے ہی پوری ہو چکی ہے، ضرورت پڑنے پر مزید درآمد کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں چاول کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔

اسی وزارت کے ایک اور افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی تھرڈ پول کو بتایا کہ پاکستان کو سالانہ تین کروڑ 10 لاکھ ٹن گندم کی ضرورت ہے، اور اس کے پاس 2 کروڑ 80 لاکھ ٹن کا ذخیرہ ہے۔ نومبر 2022 میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت پہلے ہی 25 لاکھ ٹن گندم درآمد کر چکی ہے، اور آنے والے مہینوں میں مزید 10 لاکھ ٹن گندم درآمد کی جائے گی۔ نومبر کے اوائل میں وفاقی حکومت نے روس سے تین لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔

کسان سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو ابھی تک برداشت کر رہے ہیں:

سندھ کے ضلع مٹیاری سے تعلق رکھنے والے ایک کسان ندیم شاہ نے کہا کہ 2022 کے سیلاب میں صوبے میں 60 فیصد سے زیادہ فصلیں ضائع ہوئیں اور بہت سے کسانوں کا سب کچھ ضائع ہوگیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کاشتکاروں کو ان کی ضرورت کے مطابق نقصانات کی تلافی کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ کسانوں کو ان کے بھاری نقصان کے باوجود کچھ نہیں ملا اور اب ان میں سے بہت سے لوگ نئی فصلوں کی بوائی شروع کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

نومبر 2022 میں بات کرتے ہوئے ندیم شاہ نے کہا کہ کسان اب بھی اپنے طور پر کھیتوں سے سیلابی پانی کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ گندم کی بوائی کر سکیں، جو موسم سرما کی اہم فصل ہے۔ انہوں نے اندازہ لگایا کہ ان کوششوں کے سندھ میں محکمہ زراعت کی توسیع کے ڈائریکٹر جنرل عنایت اللہ چاگرو نے تھرڈ پول کو بتایا کہ صوبے میں زیر کاشت 43 لاکھ ایکڑ رقبے میں سے 2022 کے سیلاب میں 36 لاکھ ایکڑ پر فصلوں کو نقصان پہنچا۔ اس سال موسم سرما میں گندم کی فصل کا تخمین شدہ رقبہ 29 لاکھ سے کم ہو کر 24 لاکھ ایکڑ رہ گیا ہے جس کی وجہ کھیتوں میں سیلابی پانی کی موجودگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کسانوں کی مدد کے لیے بیج اور سبسڈی والی کھاد فراہم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نےاکتوبر 2022 کے آخر میں زرعی شعبے کے لیے 1.8کھرب پاکستا نی روپے کے ایک خصوصی پیکج کا اعلان کیا تاکہ زراعت کی پیداوار اور کسانوں کی آمدنی کو فروغ دیا جاسکے، خاص کر ان علاقوں میں جو سیلاب سے متاثر ہوئے تھے۔ لیکن ندیم شاہ نے کہا کہ ان کے تجربے میں ایسی اسکیمیں شاذ و نادر ہی کسانوں، خاص طور پر چھوٹے پیمانے پر کاشت کاری کرنے والے کسانوں تک پہنچتی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کا کردار:

موسمیاتی سائنس دانوں نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی بدولت گزشتہ سال سیلاب کی وجہ سے ہونے والی بارشیں تقریباً 50 فیصد زیادہ ہو سکتی ہیں۔ تاہم، ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ تباہی کے پیچھے موسمیاتی تبدیلی ہی واحد عنصر نہیں تھی بلکہ زمین کے استعمال کی ناقص منصوبہ بندی کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔

سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ جیسے جیسے موسمیاتی تبدیلی بدتر ہوتی جا رہی ہے، امکان ہے کہ 2022 کے سیلاب جیسے واقعات عام ہو جائیں گے۔ جیسا کہ سندھ آباد کار ایسوسی ایشن کے شاہ نے تھرڈ پول کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کے واقعات زیادہ شدت کے ساتھ بار بار آئیں گے، لیکن ابھی تک کسانوں کی مدد اور تحفظ کے لیے بچاؤ کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا ہے۔


ڈائیلاگ ارتھ ایک کثیرالزبان پلیٹ فارم ہے جو ہمالیہ کے آبی بہاؤ اور وہاں سے نکلنے والے دریاؤں کے طاس کے بارے میں معلومات اور گفتگو کو فروغ دینے کے لئے وقف ہے.