موجودہ حکومت اور پچھلی حکومت دونوں کا حالیہ معاشی حالات میں کردار ہے، آج تک ہم یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ پاکستان کو ایران اور شمالی کوریا جیسا ملک بننا ہے، یا جنوبی کوریا اور جرمنی جیسا، انڈیا بھی کہاں سے کہاں سے پہنچ گیا ہے، ویت نام کی آبادی پاکستان سے آدھی ہے مگر ان کی برآمدات پاکستان سے 10 گنا زیادہ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بہت پرانا مسئلہ ہے، پاکستان میں 1988 سے اقتدار کا کھیل کھیلا جا رہا ہے، موجودہ معاشی بحران اسی اقتدار کے کھیل کا نتیجہ ہے، معاشی حالات کی ابتری کی وجہ سے ہماری ریاست اورسیاست دونوں ناکام ہو چکی ہیں، ہم مخصوص مفادات سے آگے نہیں جا پارہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ اسحاق ڈار کے بس کی بات نہیں ہے، ان کو اپنی پالیسی میں تبدیلی لانا ہو گی۔ یہ کہنا ہے ماہرمعاشیات یوسف نذر کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی صورتحال سنگین ہے، زرمبادلہ بیرونی ادائیگیوں کے لیے ناکافی ہے، شہبازشریف کی چین اور آئی ایم ایف سے بات ہوئی ہے، آرمی چیف عاصم منیرسعودی عرب کے دورے پرہیں، وہاں سے امداد کی توقع ہے،اشرافیہ اور سیاست کی جنگ کی وجہ سے حالات اس نہج پر ہیں۔ سعودی عرب کی امداد کے بعد بھی معاشی حالات ٹھیک ہونا مشکل ہے، اگرسعودی عرب ، چین اور یو اے ای ملکر 7 یا 8 عرب ڈالر کرتے ہیں تو یہ ایک معجزہ ہوگا۔ موجودہ معاشی حالات پاکستان کی ریاست کے لیے ایک المیہ اور ناکامی کا باعث ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ فیصلہ کرتی ہے کہ کس کو لانا ہے، وزیراعظم کا فیصلہ بھی وہ کرتے ہیں، وہ ماہرین معاشیات کی بجائے اکاؤنٹنٹ حضرات سے مشورہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مفتاح اسماعیل کے دورمیں پٹرول کی قیمت زیادہ تھی جو اب کم ہو گئی ہے، اس لیے اس وقت پٹرول کی قیبت بڑھانے پر تنقید مناسب نہیں ہے۔ اسد عمرنے بھی 9 ماہ لگائے تھے، پھر آئی ایم اف کے پاس گئے تھے، شوکت ترین نے عمران خان کے کہنے پر پٹرول کی قیمت نہیں بڑھائی جس سے مالی خسارے میں اضافہ ہوا، ہی ڈی ایم کی حکومت نے بھی پٹرول کی قیمت نہیں بڑھائی تھی جس سے 200 عرب کا نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو 6 ماہ پہلے ضروری اقدامات کرنے چاہیے تھے، حکومت کو پٹرول کی قیمت 300 روپے فی لیٹرکرنی چاہیے ہیں، پاکستان میں چند ہفتوں کا پٹرول بچا ہے، مزید پٹرول خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
یوسف نذر نے کہا کہ پاکستان کو برآمدات بڑھانے کی ضرورت ہے، دفاعی بجٹ بھی دن بدن بڑھ رہا ہے، حکومتی سٹرکچر کے اخراجات میں کمی مشکل ہو گی، اس لیے پاکستان کو اپنی آمدنی میں اضافہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کو من موہن سنگھ جیسے انڈین ماہرمعاشیات سے مشورہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، انڈیا کے بیرونی اثاثہ جات بہت زیادہ ہیں، جبکہ پاکستانی حکمران بیان دیکرسمجھتے ہیں کہ انہوں نے تیر مارلیا ہے۔
یوسف نذر نے مزید کہا کہ ہماری معیشت اشرافیہ کے ہاتھ میں ہے،وہ اپنے پیسوں سے رئیل سٹیٹ کا کاربار کرتے ہیں، باقی اخراجات کے لیے بیرونی قرضہ جات لیتے ہیں، ان مسئلوں سے نکلنے کے لیے سیاسی عمل سازی کی ضرورت ہے۔
ماہرمعاشیات فہد علی نے کہا کہ پاکستان کو معاشی حالات میں توازن کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا، حکومت اور اسحاق ڈار کو یہ کڑوی گولی کھانا پڑے گی۔ پاکستان میں معیشت میں اصلاحات کے لیے طویل دورانیہ چاہیے، آئی ایم ایف کے پیکج کے بعد پاکستان اصلاحات کے لیے کچھ وقت لے سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں ٹیکنوکریٹ بھی کوئی معجزہ نہیں کر سکتے، معاشی حالات ٹھیک کرنے کے لیے سیاسی فیصلہ سازی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو 'بیلنس آف پیمنٹ' کے بحران سے نکلنا ہو گا، فارن کرنسی میں بہتری کے بغیر یہ دباؤ ٹھیک نہیں ہو سکتا، ہمارے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ ہم اپنی پسند کے مطابق فیصلے لے سکیں، لہذا ہمیں آئی ایم اف اور عالمی مالیاتی اداروں کی بات ماننا ہو گا۔
فہد علی نے کہا کہ جب امریکہ پیسے دے رہا تھا تو ملٹری آپریشن کرنا آسان تھا، مگر اب ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے، اب ہمیں خود کچھ کرنا ہو گا۔ بلاول بھٹو کا بیان آیا کہ امریکہ سرحدوں کی سکیورٹی کے لیے امداد دینا چاہتا ہے، مگر اب تک اس بیان کی کوئی مادی حالت سامنے نہیں آئی۔ پاکستان کے لیے بیرونی امداد کے بغیردہشت گردوں کے خلاف آپریش کرنا خاصا مشکل کام ہو گا۔
فہد علی نے کہا کہ ان مسائل کا کوئی بھی فوری حل نہیں ہے، ہمارے ہاں عوام ٹیکس نہیں دیتے، امیرلوگ ٹیکس نہیں دیتے، بڑے دکاندار بھی ٹیکس نہیں دیتے، بڑے بڑے رئیل سٹیٹ والے افراد بھی ٹیکس نہیں دیتے۔ پاکستان کا امیر طبقہ جو بہت تھوڑا ہے، ان کے پاس بے تحاشہ دولت ہے اوروہ لوگ اپنی دولت کو بانٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان مسائل کے حل کی سیاسی قیمت زیادہ ہے، صاحب اقتدار افراد کو اپنی دولت پر ٹیکس لگانا ہو گا، پاکستان میں غریب افراد کی تو غذائیت ہی پوری نہیں ہو پارہی، غریب افراد کو غذا فراہم کرنے کے لیے امیر پر ٹیکس لگانا ہو گا۔ سب سے زیادہ طاقت فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے لہذا ان کی زمہ داری بھی بڑی ہے کہ وہ ان حالات سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔