پاکستان میں سویلین بالادستی کا خواب ہر حقیقی سیاسی کارکن دیکھتا ہے اور پچھلے ستر سالوں سے دیکھ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کا ظہور بھی سویلین بالادستی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے ہی ہوا تھا جو قائد عوام کے عدالتی قتل پر چکنا چور ہو گیا جس کے بعد خواب دیکھنے پر ایسی پابندی لگی کہ خواب دیکھنے کو کفر اور ملک دشمنی کے معانی پہنا دیے گئے۔
سیاسی کارکن بنانے والی نرسریاں تباہ کر کے اپنی قسم کے سیاسی کارکن گھڑنے کی فیکٹریاں قائم کی جانے لگیں جو خواب نہیں دیکھتے۔ موجودہ دور میں کارکنوں کو دن کے اجالے میں خواب دکھائے جاتے ہیں اور اپنی مرضی کی تعبیر بتائی جاتی ہے۔ انہیں اقبال کے شاہین قرار دیا جاتا ہے جو اکثر غنودگی میں دہلی کے شاہی قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرا رہے ہوتے ہیں۔
یہ وہی اقبال کے شاہین تھے جنہیں تبدیلی کا خواب دکھا کر ممولہ بنا دیا گیا۔ جن سے روح امم بھی چھن گئی ہے۔ بھلا ہو بزرگ صحافی ہارون الرشید کا کہ انہوں نے عین وقت پر قائد کے اقبال کی حیثیت سے دستبرداری اختیار کر لی بصورت دیگر ان کی قبر بھی دشنام کی زد میں رہتی۔ یقیناً وہ آج سکون میں ہوں گے۔ اس خرابے میں حقیقی سیاسی کارکنوں کے خیالات چرا کر زبانوں سے الفاظ چھین کر تبدیلی کا چورن تیار کیا گیا ہے۔
محنت کش طبقات سمیت انقلاب کی مالا جپنے والے بائیں بازو کے متوالے بھی کچھ وقت کے لئے فریب میں آ کر چکرا گئے تھے۔
کئی انقلاب کا چولا اتار کر تبدیلی کی اوڑھنی اوڑھ چکے ہیں۔ سمجھداروں نے تبدیلی سے صرف لانڈری کا کام لیا اور مالکان کو کنوئیں کے بیل کی ضرورت تھی۔ چھوٹے چھوٹے وقفے دے کر یہ ڈرامہ 72 سال سے سٹیج کیا جا رہا ہے۔ محض کردار تبدیل کیے جاتے رہے ہیں۔ سکرپٹ ایک ہی رہا ہے۔
قائد عوام بھٹو شہید نے سکرپٹ تبدیل کرنے اور مصالحت کی کوشش کی جس کے جرم میں دار تک پہنچے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا عہد بھی امیدوں سے بھرپور رہا۔ کئی خواب دیکھے۔ کئی خواب ٹوٹے۔ امیدیں دم توڑ گئیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو دن دیہاڑے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ آصف زرداری صدر بنے۔ مصالحت اور مفاہمت کی پھر کوشش کی گئی۔ نتیجہ پھر زیرو نکلا۔ شاید آصف علی زرداری اپنی بقا کی جنگ لڑتے رہے ہیں۔
یہ بلاول کی سیاست کا آغاز ہے۔ پارلیمنٹ میں گونجتے ہیں مگر جب سے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کا نزول ہوا ہے اور ملکی سیاست میں ابھر کرسامنے آئے ہیں، بلاول نے بھی لہجہ بدل لیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی پی ٹی ایم-آئیزیشن ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ جمہوریت پسند سیاسی پارٹیاں اور گروپ پی ٹی ایم کے ساتھ ہیں۔ منظورپشتین نے جمہوری عوام کے لئے آکسیجن کا کام کیا ہے۔ نئی صبح بن کر طللوع ہوئے ہیں۔
انقلاب ہجوم سے نہیں، فکر سے آتے ہیں جو فکر منظور پشتین کی شروع کردہ جدوجہد سے برآمد ہوئی ہے۔ منظور پشتین پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک نیا باب لکھنے جا رہے ہیں۔ ناقابل مصالحت مؤقف پر کھڑے ہیں۔ حکمران طبقہ ہر حربہ آزما رہا ہے لیکن نوجوان پشتون لیڈر ہمت و حوصلے کی مثال بن کر ابھر رہا ہے۔ منظور صرف پشتونوں کے لیڈر نہیں رہے بلکہ پاکستان کے ہر مظلوم کے قائد بن چکے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک پنجابی لڑکی نے اپنے ویڈیو پیغام میں منظور پشتین کی جرأت و بہادری کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ایسے ہی لیڈر کی ضرورت تھی جس کا ظہور ہو گیا ہے۔ منظور پشتین کی آواز اب صرف پشتون طبقہ تک محدود نہیں رہی۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان سمیت گلگت بلتستان کے مظلوم اور پسے ہوئے طبقات نے بھی منظور پشتین کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے۔
بھٹو شہید نے عوام کو زبان دی۔ منظور پشتین نے حقوق کے لئے کھڑے ہونے اور ڈٹ جانے کی ہمت و حوصلہ دیا ہے۔ منظور پشتین فکری بنیادوں پر جیت چکا ہے۔ شہید بھٹو جو کام نہیں کر سکے، وہ کام منظور پشتین نے کر دیا ہے۔ منظور پشتین ایک فکری علامت اور متبادل بیانیہ بن چکے ہیں۔ فکر کو روکا جا سکتا ہے اور نہ قتل کیا جا سکتا ہے۔