سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار، سابق سربراہ ISI جنرل (ر) فیض حمید اور چند دیگر ججز ایک واٹس ایپ گروپ میں تھے اور یہیں یہ فیصلے کیے جاتے تھے کہ کس کو سزا دینی ہے، کون سا کیس اٹھانا ہے، کس کو ریلیف دینا ہے اور کس کے خلاف کیا کارروائی کرنی ہے۔ یہ دعویٰ کیا ہے صحافی اسد علی طور نے۔
منگل کی شام اپنے وی لاگ میں صحافی اسد علی طور نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کا آج بھی عدلیہ پر گہرا اثر ہے۔ خواہ وہ عملہ ہو یا بنچز، ثاقب نثار ان بااثر شخصیات میں سے ہیں جو اب بھی عدلیہ میں غیر معمولی حد تک مداخلت کرتے ہیں۔
حال ہی میں صحافی زاہد گشکوری سے گفتگو میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے انکشاف کیا ہے کہ دو ہفتے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ان سے رابطہ کیا اور اپنے خلاف جاری متعدد مقدمات میں ان سے مدد طلب کی۔عمران خان نے انہیں کہا کہ 'میں بہت مقدمات میں پھنسا ہوا ہوں۔ میری مدد کریں'۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ عمران خان نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے مدد کیوں مانگی؟ ایسی کون سی خاصیت ہے سابق چیف جسٹس میں جس کی بنا پر وہ عمران خان کی مدد کر سکتے ہیں؟
یوٹیوب پر اپنے وی-لاگ میں اسد طور کا کہنا ہے کہ آج کے دن تک ان کی عدلیہ میں دخل اندازی اس کی وجہ ہے۔ خواہ وہ عملہ ہو یا بنچز ہوں، ثاقب نثار ان بااثر شخصیات میں سے ہیں جو اب بھی عدلیہ میں غیر معمولی قسم کا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دور میں عدلیہ میں بہت زیادہ 'سرمایہ کاری' کی ہے۔
اسد علی طور کے مطابق ثاقب نثار نے چن چُن کے ججز کا انتخاب کیا اور سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز کرتے ہوئے جونیئر ججز کو ترقی دی۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے عدالتی عملے میں من چاہی بھرتیاں کیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے رجسٹرار خواجہ داؤد، جو کہ چیف جسٹس کے رشتہ دار تھے، ان کے ذریعے بہت ساری بھرتیاں کیں۔ ان تمام چیزوں کے پیش نظر وہ آج بھی 'موور اینڈ شیکر' مانے جاتے ہیں۔
"ثاقب نثار کے خلاف مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ہمارے خلاف بہت ہی جانبدار کارروائی اور فیصلہ کیا۔ 2017 میں جب ثاقب نثار چیف جسٹس تھے تو اس وقت وہ مسلم لیگ ن کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید اس وقت ڈی جی سی تھے۔ ایک واٹس ایپ گروپ تھا جس میں ثاقب نثار، فیض حمید اور سپریم کورٹ کے تین اور جج صاحبان شامل تھے۔ اس میں انتخابی عذر داریوں کا فیصلہ ہوتا تھا، اس میں سیاستدانوں کے مقدموں کے فیصلے ہوتے تھے کہ فلاں کو نااہل کرنا ہے، فلاں کو رکھنا ہے فلاں کو ٹارگٹ کرنا ہے، فلاں کے خلاف کیس ٹیک اپ کریں۔ اور ان پر عملدرآمد ہوتا تھا۔ ثاقب نثار خود فرعون وقت بن کر کہتے تھے کہ دو تین کو تو میں ایک نظر سے نااہل کر دیتا ہوں۔"
اسد طور کے مطابق یہ ساری گیم تھی جس کا جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے صحافی جاوید چوہدری کو دیے گئے انٹرویو میں خلاصہ کیا۔ انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ 'میں نے فیض حمید کو بھجوا کر عمران خان کو صادق اور امین قرار دلوایا تھا۔ عمران خان کا بنی گالہ والا فارم ہاؤس غیر قانونی ثابت ہو گیا تھا تو میں نے ثاقب نثار سے کہہ کر ریگولرائز کروایا تھا'۔
اپنے وی لاگ میں صحافی نے انکشاف کیا کہ لاہور کے ایک چیف جسٹس یاور علی تھے جن کی بیٹی سپریم کورٹ جج عظمت سعید شیخ کی اہلیہ تھیں۔ خود یاور علی سپریم کورٹ کے ایک سینیئر جج جسٹس خلیل الرحمان رمدے کے بہنوئی تھے۔
ایک بار قصور سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے ورکرز نے احتجاج کیا جس میں انہوں نے ثاقب نثار کے خلاف کچھ غیر اخلاقی نعرے لگائے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ یاور علی کو فون کیا اور ان کو کہا کہ اس کا نوٹس لیں اور دہشتگردی کی دفعات لگا کر ان کو جیل میں بند کروائیں۔ یاور علی نے کہا کہ میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں۔ اگر کرنا ہی ہے تو آپ اس کو سپریم کورٹ میں ٹیک اپ کر لیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس موقع پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور چیف جسٹس یاور علی کے مابین انتہائی غیر اخلاقی جملوں اور گالیوں کا تبادلہ ہوا۔ اس وقت عظمت سعید شیخ نے دخل اندازی کر کے صلح کروائی۔ یہ سابق چیف جسٹس کی ن لیگ سے نفرت کا عالم تھا۔ یہ وہی ن لیگ تھی جنہوں نے خالد انور کے ذریعے ایک دور میں انہیں سیکرٹری قانون مقرر کیا تھا۔ بعد ازاں ن لیگ نے ان کو لاہور ہائی کورٹ کا جج بنایا۔
موصوف ثاقب نثار گیم کیسے کرتے تھے؟
اسد طور کے مطابق ن لیگ کی گردن اتارنے کی گیم چل پڑی تھی۔ سینیٹ کا الیکشن تھا جو 2018 کی اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے سے پہلے تھا۔ 2018 عام انتخابات میں ن لیگ کو نہ بھی جیتنے دیتے تو کم از کم ان کی سینیٹ میں اکثریت رہتی کیونکہ اس وقت وہ اکثریت میں تھے اور سینیٹ کی سب سے زیادہ نشستیں جیت سکتے تھے۔ جسٹس ثاقب نثار نے نواز شریف کو ن لیگ کی صدارت سے فارغ کروایا اور جو سینیٹرز ن لیگ کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے انہیں آزاد قرار دے دیا۔
فیض حمید کو 'ہارس ٹریڈنگ' کا قانونی راستہ مل گیا اور آزاد منتخب ہونے والوں کی اکثریت ن لیگ کے خلاف کام کرتی رہی۔ پنجاب سے ن لیگ کے 2 سینیٹرز کو نااہل کیا۔ وہاں سے پی ٹی آئی نے اپنے سینیٹرز منتخب کروا لیے۔ یوں انہوں نے پی ٹی آئی کی اکثریت بڑھوا دی۔ یہ ساری پولیٹیکل انجینئرنگ ثاقب نثار نے کی۔
وکیل ریاض حنیف راہی سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی کے خلاف پٹیشن لے کر آ گئے۔ ثاقب نثار بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ سے ہٹانا چاہتے تھے اس لئے اس پٹیشن کے ذریعے وہ اپنا مقصد حاصل کر سکتے تھے۔ ایک ہفتے بعد ان کا کوئٹہ بار کونسل میں خطاب تھا تو کوئٹہ میں بلوجستان کے وکلا نے باور کروایا کہ 'جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہاتھ لگا کر کوئٹہ آئیں تو ہم آپ کی ٹانگیں توڑتے ہیں'۔ بقول عمران خان کے، اس پر ثاقب نثار گھبرا گئے۔ انہوں نے کوئٹہ جانے سے پہلے پہلے اس پٹیشن کو مسترد کرنا تھا۔ انہوں نے بڑے دل سے پیٹیشن کو سماعت کے لئے اٹھایا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کو فارغ کریں گے لیکن دباؤ آیا تو اس کو مسترد کرنے کے لئے جوتے چھوڑ کر بھاگے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ریاض حنیف راہی کو پتا چلا تو وہ منظر سے غائب ہو گئے۔ رحیم یار خان میں اپنے آبائی گھر میں جا کر چھپ گئے۔ ان کے راولپنڈی والے گھر میں رات گئے چھاپہ مارا گیا۔ ریاض حنیف راہی کے بیٹے نے بتایا کہ وہ گھر ہی نہیں ہیں۔ رحیم یار خان کے سیشنز جج کو، ایک مجسٹریٹ کو اور پولیس کو بھیج کر ریاض حنیف کو رات کے ایک بجے اٹھوایا۔ پولیس وین انہیں سپریم کورٹ لے کر آئی۔ اگلی صبح کورٹ میں پیش کیا۔ ریاض حنیف نے کہا کہ میری طبیعت خراب ہے، دلائل نہیں دے سکتا۔ عدالت نے کہا کہ ہم نے درخواست پڑھ لی ہے۔ درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔
اسد علی طور نے فیصل رضا عابدی کا واقعہ بھی سنایا جنہوں نے ثاقب نثار کے خلاف ایک ٹاک شو میں بات کی تھی۔ اس پر توہین عدالت کا ازخود نوٹس لے لیا۔ فیصل رضا عابدی کو سپریم کورٹ میں پیش ہونا تھا۔ ثاقب نثار نے راتوں رات پولیس پر دباؤ ڈلوا کر خفیہ طور پر ایف آئی آر کٹوائی۔ جب فیصل رضا عابدی سماعت کے بعد عدالت سے باہر نکلے تو پولیس نے کہا کہ فلاں فلاں کیس میں آپ کو گرفتار کر رہے ہیں اور گرفتار کر کے لے گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ججز کو کالیں کر کر کے فیصل رضا عابدی کی ضمانت نہیں ہونے دی۔
معزز جسٹس منیب اختر سندھ ہائی کورٹ میں چوتھے نمبر پر جونیئر جج تھے لیکن چونکہ وہ ثاقب نثار کے استاد خالد انور کے داماد تھے تو ثاقب نثار ان کو ترقی دے کر سپریم کورٹ لے آئے۔ حالانکہ ان سے کئی درجے قابل اور سینیئر جج جسٹس عقیل عباسی کو ترقی نہیں دی گئی۔
اس وقت ثاقب نثار نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو یہ توجیہ پیش کی کہ میں نے سندھ ہائی کورٹ کے تمام ججز بشمول جسٹس عقیل عباسی، عرفان سعادت اور احمد علی شیخ سے پوچھ لیا ہے۔ سب اس فیصلے پر متفق ہیں۔ چند برس بعد پتہ چلا کہ ان جج صاحبان کو صرف ثاقب نثار نے مطلع کیا تھا کہ جسٹس منیب اختر کو ترقی دے کر سپریم کورٹ لے جا رہا ہوں۔ 'ہم احترام میں خاموش رہے۔'
اب جسٹس اعجازالاحسن کو دیکھ لیں۔ جب ثاقب نثار پی ٹی آئی کے امیدواروں کی انتخابی مہم کے لئے مختلف حلقوں میں دورے کر رہے تھے تو یہ موصوف ثاقب نثار کے ساتھ ہوتے تھے۔ ان کے بہت قریبی رہے ہیں۔ معزز چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی ثاقب نثار کے بہت قریبی رہے ہیں۔ عمران خان کو صادق اور امین قرار دینے والے بنچ کا بھی وہ حصہ تھے۔