بلوچستان میں دوران زچگی اموات کی شرح سب سے زیادہ

بلوچستان میں دوران زچگی اموات کی شرح سب سے زیادہ
35 سالہ بی بی سلمیٰ (فرضی نام) ضلع چاغی کے ہیڈکوارٹردالبندین کی رہائشی ہیں، جب انہیں تکلیف محسوس ہوئی تووہ حسب روایت علاج معالجہ کیلئے مقامی دائی کے پاس چلی گئیں،شروع کے دنوں میں انہوں نے مقامی دائی (خواتین جوگھریلو سطح پر دوران زچگی کے کیسزنمٹاتی ہیں)کی تجویزکردہ دیسی ادویات استعمال کیں جس سے انہیں وقتی طورپرآرام مل گیا۔
بلوچستان کا ضلع چاغی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے750کلومیٹردورپاک افغان اورایران سرحد سے منسلک علاقہ ہے، دیگر شہروں کی طرح دالبندین تک جانے والی سڑک خستہ حال اورجگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کاشکارہے جس کی وجہ سے لوگوں کو سفرمیں مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے، خصوصاًدوران زچگی خواتین کو منتقل کرنے میں لواحقین کو بڑی دشواری کاسامناکرناپڑتاہے۔
نومولود بچہ چاہئے یااس کے ماں کی زندگی چاہتے ہو؟
جب دردکی شدت زیادہ بڑھ گئی تو(سلمیٰ)کو مزیدعلاج معالجہ کیلئے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ لایاگیا، جہاں پرانہیں ایک نجی ہسپتال میں داخل کرلیاگیا۔ محمد سلیم (سلمیٰ کے شوہر کافرضی نام) جو کہ پیشے کے لحاظ سے دالبندین کے مقامی اسکول میں ایک استادہیں، نے بتایاکہ کافی انتظارکے بعدڈاکٹرنے مریض کامعائنہ کرکے اگلے دن آپریشن کرنے کی تجویزدے دی جس پر وہ راضی ہوگئے، ”اگلے دن جب (سلمیٰ) کو آپریشن تھیٹرلے گئے توآدھے گھنٹے سے پینتالیس منٹ کے بعد ڈاکٹرکی طرف سے پیغام ملا کہ آپ لوگوں کو ’نومولودبچہ ‘چاہئے یااس کی ’ماں ‘کی سلامتی چاہتے ہیں“۔ یہ بات سن کرایک لمحے کیلئے وہ پریشان ہوگئے مگرخاندان کے دیگر لوگ بھی ہسپتال میں موجودتھے اورانہوں نے کہا کہ والدہ کو بچالیں۔اس دوران دوگھنٹے سے زائد کاوقت گزرگیا اورڈاکٹرکی کوششوں کے بعد بالآخرسلمیٰ کاآپریشن کامیاب ہوگیااوروہ ہوش میں آگئیں۔
پاکستان میٹرنل مورٹیلٹی سروے 2019 کے مطابق پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے جہاں دوران زچگی ایک لاکھ میں سے 298مائیں لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔قومی سطح پر اموات کایہ تناسب تقریباً 40 فیصد سے زائد ہے۔بلوچستان میں سکلڈ برتھ اٹینڈنٹ یعنی کسی تربیت یافتہ طبی اہلکار کے ذریعے زچگی کی شرح صرف 38 فیصد ہے۔ ناتجربہ کاراورغیر تربیت یافتہ طبی اہلکاراموات کی شرح میں اضافے کاسبب بن رہی ہیں۔
چالیس سال سے شرح اموات کوکم کرنے کیلئے کوشش کررہے ہیں۔
بولان میڈیکل کالج کوئٹہ گائنی یونٹ کی سربراہ پروفیسرڈاکٹرنجمہ غفارسمجھتی ہیں کہ بلوچستان کاخستہ حال انفراسٹرکچردوران زچگی شرح اموات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اموات کی دوسری بڑی وجہ پرائمری اورٹرشری ہیلتھ کیئرکے نظام میں موجودکمزوریاں جبکہ تیسری بڑی وجہ ہسپتالوں میں افرادی قوت کی کمی ہے،وہ کہتی ہیں کہ دوران زچگی اموات کوکم کرنے کیلئے پچھلے 40سالوں سے کوشش کررہے ہیں مگر اب تک وہ اس ہدف کوحاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ جب کوئی مریض ہسپتال پہنچ جائے تو ڈاکٹرزکی کوشش ہوتی ہے کہ اس میں”فورتھ ڈیلے“ نہ ہو اوراس میں ہمارایونٹ کام کررہا ہے مگرحکومت کی جانب سے تاحال ہمیں آئی سی یو تک بناکرنہیں دیاگیا ہے، حکومتی سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے صوبے کے بڑے ہسپتال ”بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال “کے گائنی یونٹ میں آئی سی یوفعال نہیں ہے، یہ بھی شرح اموات میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بلوچستان کی آبادی دوردراز رقبے پرپھیلی ہوئی ہے اورہم سب کو طبی سہولیات فراہم نہیں کرسکتے، تاہم گھرگھرجاکرموبائل یونٹ کے ذریعے شرح اموات کو کم کیاجاسکتاہے۔
صوبے میں ریفرل کانظام بھی سست روی کاشکارہے، یہ ضروری ہے کہ جن علاقوں میں لوگ ہسپتالوں تک پہنچ نہیں پاتے ہم مقامی لیڈی ہیلتھ وزیٹرزکوتربیت دیں تاکہ وہ بہتر خدمات فراہم کرسکیں۔انہوں نے کہاکہ بی ایم سی میں گزشتہ چھ ماہ کے عرصے میں دوران زچگی 18 مائیں زندگی کی بازی ہارگئی ہیں۔جبکہ روزانہ 80 کے لگ بھگ مریضوں کو دوران زچگی علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوران زچگی ماں اوربچوں کی شرح اموات کوکم کرنے کیلئے خاندانی منصوبہ بندی بے حدضروری ہے ، اینٹی نیٹل کلینک کے ذریعے انیمیا، شوگراوربلڈپریشرسمیت ہائی رسک مریضوں کی نشاندہی کرکے ان کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں،یہاں ایک خاتون بغیروقفے کے آٹھ سے دس بچے پیداکررہی ہے جس سے غذا کی کمی اورانیمیاکامسئلہ ہوتا ہے جس سے خواتین لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔خاندانی منصوبہ بندی، اینٹی نیٹل کیئرکے علاوہ محفوظ ڈیلیوری کرکے دوران زچگی شرح اموات کو کم کیاجاسکتا ہے۔
حکومت بلوچستان نے آنے والے چار سالوں تک صوبے میں زچگی کے دوران شرح اموت کو کم کرکے200 تک لانے کا ہدف مقررکیا ہے۔ محکمہ صحت کے حکام اور طبی ماہرین حاملہ خواتین کی پیدائش سے پہلے دیکھ بھال نہ ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ طبی عملے کی شدید کمی، اور مناسب سہولیات سے آراستہ ہسپتالوں اور صحت کے مراکز تک رسائی میں مشکلات کو صوبے میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی وجوہات قرار دیتے ہیں۔بلوچستان میں محکمہ صحت کے پاس ضلعی سطح پر زچگی کے دوران ہونے والی اموات کا ڈیٹا بھی موجودنہیں ہے۔
محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق ’بارکھان، شیرانی، آواران، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، موسیٰ خیل، واشک، خاران سمیت بلوچستان کے ان اضلاع میں زچگی کے دوران ماں کی اموات کی شرح زیادہ ہے جہاں زچہ و بچہ کیلئے جامع دیکھ بھال کی سہولیات یعنی ماہر امراض نسواں، ماہر امراض اطفال سمیت تربیت یافتہ طبی عملہ، لیبر روم، آپریشن تھیٹر اور دیگر ضروری سہولیات موجود نہیں۔
صوبے کے34میں صرف 5اضلاع کے سرکاری ہسپتالوں میں سی سیکشن آپریشن کی سہولت دستیاب ہے۔
بلوچستان کے مختلف اضلاع کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسران، سیاسی وسماجی ورکر اور شہریوں سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے 33 اضلاع میں سے صرف خضدار، تربت، سبی، جعفرآباد اور حب کے سرکاری ہسپتالوں میں سیزرین سیکشن آپریشن ہو سکتے ہیں۔جبکہ 85 فیصد اضلاع کے سرکاری ہسپتالوں میں گائنا کالوجسٹ یا پھر ایسی سہولیات ہی نہیں جن کی مدد سے زچگی کے دوران پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے نمٹ کر ماں اوربچوں کی زندگی کومحفوظ بنایاجاسکے۔
پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017-18 کے مطابق ’بلوچستان میں تولیدی عمر (15 تا 49 سال) کی خواتین میں سے 90 فیصد نے بتایا کہ انہیں علاج کرانے کے لیے کسی نہ کسی رکاوٹ یا مشکل کا سامنا رہتا ہے۔جبکہ‘74 فیصد نے بتایا کہ ’انہیں کسی صحت مرکز تک رسائی میں طویل فاصلے کی وجہ سے مشکلات پیش آتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے جنسی و تولیدی صحت کے ادارے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے)کے مطابق تقریباً پانچ میں سے ایک خاتون میں دوران زچگی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا امکان ہے جس کے لیے اعلیٰ سطح کی پیشہ ورانہ مہارت کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔تاہم ہر 10 میں سے نو پیدائشیں مناسب طریقے سے تربیت یافتہ دائیوں کے ذریعے محفوظ طریقے سے کی جا سکتی ہیں لیکن بلوچستان میں صرف ماہر ڈاکٹروں کی ہی نہیں بلکہ تربیت یافتہ دائیوں کی بھی کمی ہے۔
وفاقی وزارت صحت کی 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان ملک کے ان صوبوں میں شامل ہے جہاں افرادی قوت کی کمی سب سے زیادہ ہے۔رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 10 ہزار کی آبادی کے لیے صرف پانچ ڈاکٹر جبکہ صرف دو نرسز یا مڈ وائف ہیں۔ یہ شرح باقی ملک کے مقابلے میں تقریباً نصف ہے۔وزارت صحت کے اندازے کے مطابق بلوچستان کو 2030 تک 14 ہزار ڈاکٹروں اور 47 ہزار ہیلتھ ورکرز کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ماہرمعالجین ودیگرطبی عملے کی کمی کوپورکرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھارہے ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز بلوچستان ڈاکٹر نور قاضی نے بتایا کہ بلوچستان میں دوران زچگی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے یہاں ایک لاکھ میں سے298مائیں زندگی کی بازی ہارجاتی ہیں، پانچ سال کی عمرکوپہنچنے والے ایک ہزارمیں سے78بچے، ایک ہزارمیں سے66شیرخوارجبکہ ہرایک ہزارمیں سے34نوزائیدہ بچے دوران زچگی لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ ’بلوچستان میں طبی عملے بالخصوص گائنا کولوجسٹ، خواتین ڈاکٹر، اینستھیزسٹ اور تربیت یافتہ دائیوں کی شدید کمی ہے۔ اینستھیزسٹ تو کوئٹہ کے بڑے ہسپتالوں میں بھی پورے نہیں ہیں۔‘انہوں نے بتایا کہ ’صوبے میں صرف 1700 کمیونٹی مڈ وائف (تربیت یافتہ دائیاں) اور 1500 لیڈی ہیلتھ وزیٹرز ہیں۔
ڈی جی ہیلتھ کے مطابق بلوچستان کے 34 اضلاع میں مجموعی طور پر 1600 سے زائد ہسپتال اور صحت کے مراکز ہیں جن میں نو ٹیچنگ ہسپتال، دو ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، 28 ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال، پانچ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال،108 رورل ہیلتھ سینٹرز، 784 بنیادی مراکز صحت جبکہ 91 زچہ و بچہ مراکز شامل ہیں۔
ڈی جی ہیلتھ سروسزکے مطابق محکمہ صحت حکومت بلوچستاندوران زچگی ماں اوربچوں کی شرح اموات کوکم کرنے کیلئے کوشاںہے، بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے نئے گائناکالوجسٹ اورماہرمعالجین تعینات کریںگے تاکہ ضلعی سطح پرخواتین کوبہترطبی سہولیات کی فراہمی ممکن ہوسکے۔
پی پی ایچ آئی بلوچستان نے ٹی ایچ کیوہسپتال خانوزئی میںحب اینڈاسپوک ماڈل کاقیام عمل میں لایاہے۔
بلوچستان میں بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی پرکام کرنے والی کمپنی پیپلزپرائمری ہیلتھ کیئرانشی ایٹیو(پی پی آئی) بلوجستان نے یو این ایف پی اے کے تعاون سے ٹی ایچ کیوہسپتال خانوزئی میںفروری2022میں ”حب اینڈاسپوک ماڈل“کاقیام عمل میں لایاجس کے تحت خواتین کودوران زچگی آپریشن اوردیگرضروری طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
پی پی ایچ آئی بلوچستان کے پبلک ہیلتھ سپیشلسٹ ڈاکٹر مختار زہری کا کہنا ہے کہ منظورشدہ لیڈی میڈیکل آفیسران کی آسامیوں اورپی پی ایچ آئی کے کلسٹرنظام کے تحت ہم 81فیصدمراکزصحت میں ماں اوربچے کو بہترطبی سہولیات فراہم کررہے ہیں، واضح رہے کہ لیڈی میڈیکل آفیسرکے آسامیوں کی تعداد110کے قریب ہے۔بنیادی مراکزصحت میں لیڈی ہیلتھ وزیٹر اور فی میل میڈیکل ٹیکنیشنز کے ذریعے زچہ اوربچہ کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر مختار زہری کا کہنا تھا کہ دیہی اور دور دراز علاقوں میں طبی ماہرین کی کمی اور صحت کے مراکز تک رسائی میں مشکلات کی وجہ کے ساتھ ساتھ معاشرتی رکاوٹوں کی وجہ سے بھی بہت کم حاملہ خواتین حمل کے دوران اپنا طبی معائنہ کراتی ہیں اور ایک بڑی تعداد گھروں میں ہی روایتی طریقوں سے زچگی کو ترجیح دیتی ہیں۔ جب پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو انہیں ہسپتال پہنچاتے پہنچاتے ہی بہت وقت ضائع ہوچکاہوتا ہے۔جس کی وجہ سے ماں اوربچے کی اموات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ پی پی ایچ آئی صوبے کے 124 بنیادی مراکز صحت میں جزوی لیبر رومز جبکہ 44 بنیادی مراکز صحت میں 24/7نارمل ڈیلیوری کی سہولیات فراہم کررہاہے ۔
ان بنیادی مراکزصحت میں حاملہ خواتین کوڈیلیوری کے دوران پیچیدگی کی صورت میں بڑے ہسپتالوں میں منتقل کرنے کیلئے ایمبولینس بھی موجودہے۔ہم نے سال 2021 میں انتیس ہزارچھ سوچالیس(29640)محفوظ ڈیلیوریاں بنیادی مراکزصحت میں سرانجام دیں۔ اس دوران حمل کے آٹھ ہزارایک سوستر(8170) پیچیدہ کیسز بڑے ہسپتالوں کو ریفر بھی کیے گئے ہیں۔
پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017-18 کے مطابق بلوچستان میں 65 فیصد زچگیاں گھروں میں اور صرف 35 فیصد صحت مراکز میں ہوتی ہیں۔صوبے میں سکلڈ برتھ اٹینڈنٹ یعنی کسی تربیت یافتہ طبی اہلکار کے ذریعے زچگی کی شرح صرف 38 فیصد ہے۔ جبکہ 52 فیصد ڈیلیوریز روایتی دائیوں کے ذریعے ہوتی ہیں۔
گھریلوسطح پر ڈیلیوری کیلئے موجود آلات کی صفائی اورضروری ادویات کی فرہمی کیلئے کوشش کررہے ہیں۔
ڈپٹی پروگرام کوارڈی نیٹر”ایم این سی ایچ “پروگرام محکمہ صحت حکومت بلوچستان ڈاکٹرسرمدسعیدخان خان کاکہناہے کہ گھریلوسطح پرڈیلیوری کے کیسزکومحفوظ بنانااولین ترجیح ہے، ایم این سی ایچ پروگرام کے تحت صوبہ بھرمیں1700کمیونٹی مڈ واِف کو تربیت فراہم کرکے ان کے لئے برتھنگ سٹیشنز (Birthing Stations) بنائے گئے ہیں جہاں پروہ محفوظ ڈیلیوری کے کیسزکرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ پروگرام کے تحت ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرہسپتالوں میں آپریشن روم، لیبررومز کوفعال بنانے کیلئے ضروری آلات ، آرایچ سی اورٹرشری ہیلتھ کیئرہسپتالوں میںمعیاری سروسزکی فراہمی کویقینی بنانے میں معاونت فراہم کررہے ہےں ۔پروگرام کے تحت اب تک کیچ ،گوادر، چاغی، نوشکی، قلعہ عبداللہ، ہرنائی اورپشین کے ٹرشری ہیلتھ کیئرہسپتالوں میں بنیادی سہولیات فراہم کردیئے ہیں ۔ پارٹنرآرگنائزیشن اورڈونرزکے تعاون سے صحبت پور، جعفرآباد، جھل مگسی اورنصیرآبادکے بنیادی مراکزصحت کو ضروری آلات فراہم کرنے کیلئے منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ ”اگرگھریلوسطح پر کوئی ڈیلیوری ہوتی ہے توہماری کوشش ہے کہ وہاں موجود آلات کی صفائی لازمی ہو، ضروری ادویات دستیاب ہوں اورصحت مندماحول ہوتاکہ ماں اوربچے کی زندگی کومحفوظ بنایاجاسکے۔