'شعیب شاہین سمیت PTI کا کوئی ترجمان ٹی وی پر نظر نہیں آئے گا'

شعیب شاہین نے بتایا کہ دو ہفتے پہلے اے آر وائی کے ایک اینکر نے مجھے بتایا کہ ان پر اور مجھ پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اس وقت میں اس اینکر کی بات کو مذاق سمجھا تھا لیکن 2 ہفتے سے اے آر وائی سے مجھے کوئی کال نہیں آئی اور وہ اینکر بھی سکرین پر نظر نہیں آ رہے۔

'شعیب شاہین سمیت PTI کا کوئی ترجمان ٹی وی پر نظر نہیں آئے گا'

پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان شعیب شاہین کے ٹی وی پروگرامز میں جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے کیونکہ عمران خان کی حمایت میں انہوں نے کریز سے نکل کر کھیلنا شروع کر دیا تھا۔ میڈیا پر انہوں نے عمران خان کا مقدمہ اس قدر بھرپور انداز میں لڑا کہ عمران خان کو ایسی سپورٹ ان کی بہنوں، بیگم اور پارٹی رہنماؤں کی جانب سے بھی نہیں مل سکی۔ اسی پاداش میں پہلے مرحلے میں شعیب شاہین کسی بھی ٹاک شو میں نہیں جا سکیں گے۔ پھر وہ کوئی پریس کانفرنس نہیں کر سکیں گے اور آخر میں سوشل میڈیا پر بھی ان کا بائیکاٹ کر دیا جائے گا۔ اگلے دو ہفتوں میں کسی بھی ٹی وی سکرین پر پی ٹی آئی کا کوئی بھی ترجمان نظر نہیں آئے گا۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی جاوید چوہدری کا۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں جاوید چوہدری نے بتایا کہ پاکستان میں جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں تو سب سے پہلے میڈیا کو مینج کیا جاتا ہے۔ ماضی میں صرف اخبارات میں تبدیلیاں کی جاتی تھیں لیکن اب ٹی وی، سوشل میڈیا بھی اس دوڑ میں شامل ہیں تو ان کو بھی مینج کیا جائے گا۔ جب بھی کوئی حکومت آنی ہوتی تھی تو اخبار مالکان کو ایک لسٹ بھیجی جاتی تھی جس میں بتایا جاتا تھا کہ فلاں رپورٹر، صحافی، کالم نگار اور ایڈیٹر کو نکال دیں یا پھر عارضی طور پر ان کو گراؤنڈ کر دیں۔ جب حکومت آتی تھی تو وہ بھی ایک فہرست دیتی تھی کہ کن لوگوں کو نکال کر کن کو رکھنا ہے۔ پھر حکومت کی جانب سے ان اخبارات کو اشتہار دیے جاتے تھے۔ بعد ازاں ٹیلی وژن پر بھی یہی ہوتا رہا اور پھر سوشل میڈیا بھی یہی کچھ ہونے لگا۔

صحافی نے کہا کہ ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں، تاثر یہی ہے کہ ان انتخابات میں مسلم لیگ ن برتری حاصل کرے گی اور نواز شریف وزیر اعظم بنیں گے۔ ان انتخابات کی راہ میں چند ایک رکاوٹیں ہیں جن میں سے ایک کا نام شعیب شاہین ہے۔ بظاہر تو وہ عمران خان کے وکیل ہیں لیکن پچھلے ایک سال میں جس طرح انہوں نے عمران خان کا میڈیا میں مقدمہ لڑا ہے وہ عمران خان کی بہنیں، بیگم اور کوئی ساتھی بھی نہیں لڑ سکا۔ پارٹی تو کسی جگہ نظر ہی نہیں آئی۔ اس صورت حال میں شعیب شاہین نے اپنا بھرپور امیج بنایا اور دیدہ دلیری کے ساتھ میڈیا میں بیٹھ کر عمران خان کا مؤقف پیش کرتے رہے۔ شعیب شاہین اتنا عدالتوں میں نظر نہیں آئے جتنا ٹی وی سکرین پر نظر آتے رہے ہیں۔ کوئی چینل ہو، کوئی پروگرام ہو، شعیب شاہین بحیثیت ترجمان عمران خان نظر آتے رہے۔ اب شعیب شاہین پر پابندی لگا دی گئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ شاید کچھ روز میں وہ کسی بھی ٹی سکرین پر نظر نہیں آئیں گے۔

جاوید چوہدری نے کہا کہ میں نے شعیب شاہین سے رابطہ کر کے پوچھا کہ کیا وہ گذشتہ روز محمد مالک کے پروگرام میں گئے تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے شو میں بلایا گیا تھا مگر شو سے آدھا گھنٹہ پہلے محمد مالک نے خود فون کر کے مجھے آنے سے منع کر دیا۔ محمد مالک نے بتایا کہ شو میں کچھ مسائل ہو گئے ہیں، صورت حال بہتر ہوئی تو میں خود آپ کو فون کروں گا۔ اسی طرح ایک اور ٹی وی پروگرام میں بھی شعیب شاہین کو بلایا گیا تھا لیکن وہاں سے بھی فون آ گیا کہ آپ تشریف نہ لائیے گا۔ شعیب شاہین نے بتایا کہ دو ہفتے پہلے اے آر وائی کے ایک اینکر نے مجھے بتایا کہ ان پر اور مجھ پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اس وقت میں اس اینکر کی بات کو مذاق سمجھا تھا لیکن 2 ہفتے سے اے آر وائی سے مجھے کوئی کال نہیں آئی اور وہ اینکر بھی سکرین پر نظر نہیں آ رہے۔

تاہم گذشتہ روز جی ٹی وی پر غریدہ فاروقی کے پروگرام میں، سماء پر سید طلعت حسین کے پروگرام میں اور آج ٹی وی پر منیزے جہانگیر کے پروگرام میں شعیب شاہین بطور مہمان شریک تھے۔ آج وہ حامد میر، ندیم ملک اور ایک اور شو میں مدعو ہیں۔ اگر آج وہ ان پروگراموں میں شریک ہوں گے تو پابندی صرف مخصوص چینلز کے لیے ہے۔ لیکن اگر وہ آج تمام پروگراموں سے غیر حاضر ہوں گے تو واضح ہو جائے گا کہ ان پر پابندی لگ چکی ہے اور اب میڈیا مالکان ان کو مدعو کرنا افورڈ نہیں کر پا رہے۔

شعیب شاہین کے بعد 3 اور لوگ ہیں جو اسی صورت حال سے گزریں گے اور شاید 15 دن کے بعد پی ٹی آئی کا کوئی بھی ترجمان ٹی وی سکرین پر نظر نہ آئے۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کے پاس صرف سوشل میڈیا رہ جائے گا جس پر تقریریں ہوں گی۔ یہ پابندی صرف ٹی وی پروگرام تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ان کے پریس کانفرنس کرنے پر بھی پابندی لگ جائے گی اور شاید سوشل میڈیا کے وی-لاگز میں بھی ان کے انٹرویو نہیں چلیں گے۔ شعیب شاہین نے کریز سے باہر نکل کر کھیلنا شروع کر دیا تھا اور عمران خان کی اتنی وکالت تو ان کی فیملی، پارٹی، ان کے ایم این ایز نہیں کر رہے تھے جتنی انہوں نے شروع کر دی تھی جس کا انہیں خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

دوسری جانب معروف صحافی اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو بے دھڑک سپورٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے پی ڈی ایم حکومت اور ریاست کی ایک نہ سنی اور اپنے بیانیے پر ڈٹے رہے۔ حالات بدلے تو دو ہفتے پہلے اے آر وائی کے 'پیچ کسنے' کا عمل شروع ہوا اور اس دوران چوہدری صاحب پر بھی برا وقت آیا۔ دو روز قبل انہیں پروڈیوسر کی کال آئی اور انہوں نے کہا کہ کل آپ تشریف نہ لائیے گا۔ سوشل میڈیا پر ان کے آف-سکرین ہونے کے بعد سے ایک تاثر دیکھنے میں آیا کہ چونکہ چوہدری غلام حسین اینٹی نواز سمجھے جاتے ہیں اسی لیے ان کو اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کی طرف سے پریشرائز کر کے فارغ کروایا گیا ہے۔ لیکن انہیں فارغ کرنے کے بعد چینل پر کافی تنقید ہوئی۔ اینکر کاشف عباسی بھی ملک میں موجود نہیں اور ان کی چھٹی کے حوالے سے بھی کافی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ پروڈیوسر عدیل راجہ کو بھی فارغ کر دیا گیا تو اس سے معاملات سنگین شکل اختیار کر گئے جس کے بعد چینل نے چوہدری صاحب کو واپس بلا لیا۔ ادارے نے یہ سب اپنی ساکھ بحال کرنے اور اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے کیا کہ ادارہ پریشرائز ہو گیا ہے۔

جاوید چوہدری نے کہا کہ اے آر وائی اس وقت برے فیز سے گزر رہا ہے اور انہیں نواز شریف کے ساتھ چلنا پڑے گا یا پھر اس کی قیمت چکانی ہو گی۔ اسی لیے امکان ہے کہ چینل کچھ لوگوں کو دائیں بائیں ضرورکرے گا۔ اے آر وائی سمیت پورے میڈیا سے ایسے لوگوں کی فہرستیں تیار ہیں جنہیں دائیں بائیں کیا جائے گا تاکہ انتخابات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکے۔