پاکستان میں یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ 1954 میں مولوی فضل الحق عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے اور مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ بنے۔ گورنر جنرل غلام محمد کو فضل الحق قبول تھے لیکن تب جب ان کے پاس عوامی مینڈیٹ نہ ہو۔ فی الفور اسکندر مرزا کو گورنر بنا کر بنگال روانہ کیا گیا۔ فضل الحق کو بطور مشرقی بنگال کے وزیر اعلیٰ کے مغربی بنگال کے دورے کی دعوت ملی۔ کلکتہ میں کھڑے ہو کر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کسی بھی مہذب اور بنیادی سفارتی آداب سے معمولی سی بھی شدھ بدھ رکھنے والے انسان کی طرح، فضل الحق نے محض اتنا کہہ دیا کہ آج بیشک ہمارے درمیان سرحدیں ہیں لیکن ہم پھر بھی ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ یہاں وہ غل مچا کہ الامان۔ اخباروں نے لکھا کہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ ہو چکا، فضل الحق جس نے قراردادِ پاکستان پیش کی تھی، یعنی یوں کہا جائے کہ تحریکِ پاکستان حقیقی معنوں میں شروع کی تھی، وہ غدار قرار پایا۔ اسکندر مرزا نے حکومت الٹا دی۔ بعد ازاں وہی فضل الحق پھر سے قابلِ قبول ہو گیا اور پورے ملک کا وزیرِ داخلہ بنا دیا گیا۔ بس پہلے مسئلہ یہ تھا کہ عوامی امنگوں کا ترجمان کہلا سکتا تھا، تو غدار تھا۔ اب ہماری امنگوں سے بنا ہے، وطن کا محافظ ہے اور محافظ بھی ایسا کہ ملک کی ہر قانون نافذ کرنے والی ایجنسی قانونی طور پر اس کے زیرِ اثر ہے۔