دنیا بھر میں کم سن بچوں کا اغوا ایک سنگین مسئلہ ہے اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے ممالک بھی اس کی زد میں ہیں۔ کراچی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں آج بھی پیدائش کے پہلے دن سے لے کر سات سال کی عمر کو پہنچنے تک کے بچوں کو اغوا کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بچے کراچی کے مختلف علاقوں، ہسپتالوں اور گلی محلوں سے اغوا ہوتے ہیں اور اغوا کاروں کے لیے یہ مقامات انتہائی آسان ذریعہ ہوتے ہیں۔
اغوا ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے اکثریتی کیسز میں بچوں کو بازیاب کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تاہم کچھ کیسز میں اغوا ہو چکے بچے کبھی اپنے والدین سے نہیں مل پاتے۔
استفسار کرنے پر کراچی پولیس آفس نے ہمیں بتایا کہ ایسے کیسز میں بچے کی بازیابی انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے جبکہ مزید کیسز سے متعلق بات کرنے سے گریز کیا اور بتایا کہ ریکارڈ پر موجود کیسز اس وقت عدالت میں سماعت کے لیے مقرر ہیں اس لیے ان سے متعلق زیادہ بات نہیں کی جا سکتی۔
10 میں سے 4 بچے کیوں نہیں ملتے؟
انسانی سمگلنگ اور اغوا کے شکار ہونے والوں میں ہر 10 بچوں میں سے 4 ایسے ہوتے ہیں جو اپنے والدین کو واپس نہیں ملتے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے راقم نے 'سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (SPARC)' کی آسیہ عارف سے بات کی جو گزشتہ دس سالوں سے اس موضوع پر تحقیق کر رہی ہیں اور ایسے متاثرہ بچوں کو اپنے والدین تک پہنچا رہی ہیں۔
آسیہ نے بتایا کہ 7 سال کی عمر تک کے اکثریتی بچوں کو اغوا کرنے کے مقاصد بے شمار ہیں لیکن ان میں سے کچھ بنیادی ہیں۔ جیسا کہ اغوا کار اس عمر کے بچوں کو اغوا کرنے کی کوشش اس لیے کرتے ہیں کیونکہ اس عمر کے بچے اپنی موجودہ شناخت بھولنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتے اور پھر باآسانی ان کو چائلڈ لیبر اور جنسی استحصال کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ جن گروہوں کے پاس یہ بچے ہوتے ہیں بچہ کچھ سال بعد یہی سمجھتا ہے کہ یہی اس کے گھر اور خاندان والے ہیں اور ان کی بات ماننے میں اغوا کار گروہوں کو آسانی ہوتی ہے۔
اسی طرح گزشتہ سال ہم نے ایک بچے کو بازیاب کروایا جس کا تعلق کراچی سے تھا اور بچہ اغوا کے بعد گزشتہ آٹھ ماہ سے رحیم یار خان میں رکھا گیا تھا۔ آسیہ نے بچے اور خاندان کی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 4 جنوری کو کراچی میں اس بچے کی پیدائش ہوئی اور ٹھیک 18 دن بعد سہ پہر کے 2 بجے بچہ اور اس کی والدہ دونوں سو رہے تھے کہ اس دوران گھر کے مرکزی دروازے سے کچھ لوگ داخل ہوئے اور بچے کو اٹھا کر لے گئے۔ جب بچے کی ماں کی آنکھ کھلی تو بچہ ماں کے سرہانے سے غائب تھا۔ بچے کے گھر والوں نے پولیس سٹیشن میں رپورٹ درج کروائی اور آٹھ ماہ ہم نے پولیس کی مدد سے بچے کی تلاش جاری رکھی۔ 11 ستمبر کو ہمارے رضاکار جو کہ رحیم یار خان میں موجود تھے، انہوں نے ایک خاتون کے پاس وہی بچہ دیکھا جس کی تصویر ہمارے رضاکار کے پاس تھی۔ رضاکار نے ہمیں موقع پر اطلاع دی، اس خاتون کا پیچھا کیا اور اس دوران ہمیں یقین ہوا کہ بچہ وہی ہے جس کو ہم تلاش کر رہے ہیں۔
پولیس کی مدد سے جب بچے کو بازیاب کروایا گیا تو اس خاتون کے ساتھ شامل اغوا کاروں نے بچے کی پیدائش کے سرٹیفکیٹ بھی بنوا لیے تھے جس سے ثابت ہو رہا تھا کہ بچہ اسی خاتون کا ہے تاہم پولیس اور ہماری تجاویز پر عدالت نے بچے کے ڈی این اے ٹیسٹ کی منظوری دی اور بچے کا ڈی این اے اس اغوا کار خاتون سے میچ نہیں ہوا جبکہ اپنے اصل والدین سے بچے کا ڈی این اے میچ کر گیا جس پر عدالت نے بچے کو اپنے اصل والدین کے حوالے کیا اور خاتون اور گروہ کے باقی افراد کو مزید قانونی کارروائی کے لیے پولیس کی تحویل میں دے دیا۔
20 برس پہلے اغوا ہونے والا صائم اب نوجوان ہو چکا ہے
آج سے تقریباً 20 سال پہلے صائم اغوا ہوا۔ صائم کی عمر اس وقت 20 سال سے زائد ہے جبکہ اسے یاد بھی نہیں کہ اسے کب اغوا کیا گیا تھا مگر صائم نے بتایا کہ مجھے جو خاتون اغوا کار گروہوں سے خرید کر لائی تھی ڈھائی سال قبل اس کی موت واقع ہو گئی ہے۔ مرنے سے کچھ دن پہلے اس نے مجھے بتایا تھا کہ میں تمہیں اغوا کاروں سے خرید کر لائی تھی جبکہ اس نے یہ بھی بتایا کہ میں نے تمہارے گھر والوں کو بہت ڈھونڈا مگر نہیں ملے۔ صائم کے مطابق اس نے یہ بھی بتایا کہ میں پولیس کے پاس جا نہیں سکی اور اس ڈر سے تمہیں بتایا بھی نہیں مگر صائم نے بتایا کہ اس طویل عرصے میں مجھے یہی یقین تھا کہ یہی میری اصل والدہ ہے۔
وہ دن میری زندگی کا بہت بھاری دن تھا مگر اب میں یہاں خوش ہوں اور نہ مجھے کوئی دلچسپی ہے کہ میں اپنے اصل گھر والوں کو ڈھونڈوں اور نہ ہی میں اب یہاں سے کہیں اور جانا چاہتا ہوں۔ صائم نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر راقم کو بتایا کہ جہاں تک میری یادداشت میں ہے وہاں تک تو میرے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں ہوا۔ کئی بار مختلف علاقوں میں ہمیں گھروں میں بھیج دیتے تھے اور وہاں میرے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی اور یہ سلسلہ کوئی پانچ سال تک چلتا رہا۔ جب میں 9 سال کا ہوا تو مجھے یاد ہے ان لوگوں نے مجھے اس عورت جو کے میرے لیے ماں سے بڑھ کر تھیں، کے حوالے کیا اور ان سے بھاری رقم بھی لی اور تب سے میں انہی کے ساتھ تھا۔
صائم نے افسردہ ہو کر بتایا کہ میرے جیسے بچوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا؟ میں نے بہت کچھ دیکھا ہے۔ اپنی اس 20 سالہ زندگی کا ایک چھوٹا سا واقعہ آپ کو سنایا مگر میرے ساتھ ہوا اس سے بھی زیادہ ہے مگر میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔
غیر سرکاری تنظیموں کے اعداد و شمار
کراچی میں بچوں کے حقوق اور لاپتہ ہونے کے حوالے سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'مددگار نیشنل ہیلپ لائن' نے گزشتہ برس کے 7 ماہ کے دوران پیش آنے والے ایسے واقعات کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ تنظیم کے مطابق گزشتہ برس شہر میں 1271 بچے لاپتہ ہو چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس بچوں کی گمشدگی کے واقعات میں 24 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
تنظیم کے سربراہ اور بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم ضیاء اعوان نے بتایا کہ 'بچوں کے اغوا، انسانی سمگلنگ اور جبری مزدوری جیسے مسائل پاکستان میں بہت زیادہ ہیں۔ یہ بہت ہی سنگین صورت حال ہے۔ 1254 بچے ہماری ہیلپ لائن پر رپورٹ ہوئے ہیں۔ مختلف قسم کے مافیا ہیں جہاں بچے جاتے ہیں۔ مگر ان بچوں کا پتا کرنے اور ان کو تلاش کرنے کا ایسا کوئی نظام یہاں موجود نہیں ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'اٹھارھویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان چیزوں کو دیکھیں مگر اب تک ایسا کوئی نظام نہیں بنایا جا سکا'۔
مددگار نیشنل ہیلپ لائن کی تازہ رپورٹ کے مطابق سال 2022 کے ماہ جنوری میں 173 بچے، مارچ میں 203 اور ماہ جون میں 217 بچوں کی گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 52 بچے پیدائش کے چند گھنٹوں بعد اغوا ہوئے۔ اس غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ بچوں کی گمشدگی کے واقعات کا معاملہ کراچی میں کوئی نیا نہیں۔ یہ واقعات صرف صوبہ سندھ تک محدود نہیں بلکہ پورے پاکستان میں بچوں کی گمشدگی کے واقعات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
کراچی میں گمشدہ بچوں کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی ایک اور غیر سرکاری تنظیم 'روشنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن' کے مطابق جنوری 2017 سے لے کر رواں سال ستمبر تک ان کی ہیلپ لائن کو 200 بچوں کی گمشدگی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن میں سے 177 بچے بازیاب ہو گئے ہیں جبکہ 23 بچے ابھی تک لاپتہ ہیں جن کی بازیابی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست زیر سماعت ہے۔
تنظیم کے صدر محمد علی کا کہنا ہے کہ پولیس لاپتہ بچوں کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتی ہے۔ اس ملک میں اگر بچوں کا جنسی و جسمانی استحصال روکنا ہے، ان کی اسمگلنگ کی روک تھام کرنی ہے تو بچوں کی گمشدگی کا سدباب ہونا چاہئیے اور اس کی فوری طور پر تفتیش ہونی چاہئیے۔
واضح رہے کہ روشنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں بھی بچوں کی گمشدگی پر ایک آئینی درخواست زیر سماعت ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ صرف رواں سال 30 لاپتہ بچوں کی لاشیں مل چکی ہیں۔
روشنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ کراچی کے کم آمدنی والے علاقوں سے لاپتہ ہونے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لانڈھی اور کورنگی زیادہ ہائی الرٹ علاقے ہیں۔
تنظیم کے صدر محمد علی کا کہنا ہے کہ اگر نومولود بچے سے لے کر چار سال کا بچہ گمشدہ ہے تو وہ گروپ انہیں اٹھانے میں ملوث ہو رہے ہیں جو بچوں سے گداگری کراتے ہیں یا پھر بے اولاد جوڑوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ اگر 5 سے 10 سال کی عمر کا بچہ لاپتہ ہے تو اس کو گداگری میں ملوث گروپ لے جا سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے خاندانی مسائل ہوں یعنی والدین میں سے کوئی ایک سوتیلا ہو یا والدین میں علیحدگی ہو رہی ہو۔ بچے اس وجہ سے بھی غائب ہو جاتے ہیں جو بعد میں مل بھی جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لاپتہ کی تشریح سیدھی سی ہے یعنی جو بھی 18 سال سے کم عمر ہے وہ بچہ ہے اور ان میں سے جو بھی گھنٹوں، دنوں یا مہینوں سے اپنے والدین سے رابطے میں نہیں، وہ لاپتہ ہے۔ اب اس کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے وہ کسی ندی نالے میں گر سکتا ہے، اس کو کوئی ورغلا کر لے جا سکتا ہے، بھکاری مافیا اغوا کر سکتا ہے، جنسی زیادتی کی نیت سے لے جایا جا سکتا ہے، تاوان کے لیے اغوا ہو سکتا ہے اور اس کی سمگلنگ کی جا سکتی ہے۔
حکومت سندھ کا مؤقف
سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے چیئرپرسن محمد ساجد جوکھیو نے ہمیں بتایا کہ غیر سرکاری تنظیموں کے اعدادوشمار کسی حد تک درست ہیں۔ صوبہ سندھ کے پاس کمزور تحقیقاتی ٹیم اور جدید آلات کا نہ ہونا ہے۔ ہم نے گزشتہ برس وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بتایا تھا کہ صوبے میں کمسن بچوں کے اغوا کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے جس پر صوبائی حکومت نے اس کے لیے اقدامات کیے جو یقیناً ناکافی تھے۔ تاہم پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت کارروائی کی وجہ سے کسی حد تک واقعات کنٹرول ہوئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ساجد جوکھیو نے بتایا کہ ہمارے پاس باقاعدہ اس کے لیے منسٹری موجود ہے چونکہ قوانین پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے اور کم وسائل کے باعث وہ اپنی ذمے داری ٹھیک سے پوری نہیں کر پاتے۔ کمسن بچوں کے اغوا کے حوالے سے موجود قوانین پر سختی سے عمل درآمد کے ذریعے سے ہی ہم اس پر قابو پا سکتے ہیں۔
فیصل رحمان کراچی میں مقیم ہیں اور فری لانس جرنلسٹ ہیں۔ انہوں نے فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ابلاغیات عامہ کی تعلیم حاصل کی ہے اور 2013 سے شہری حقوق، انسانی حقوق اور کلائمیٹ چینج سے متعلق مختلف موضوعات پر قلم کشائی کر رہے ہیں۔