ضیغم خان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف یہ نہ بھولے وہ صرف 33 فیصد ووٹ لے کر اقتدار میں آئی۔ اپوزیشن ملک کی 70 فیصد عوام کی نمائندہ ہے۔ وہ عوام کی سڑکوں پر بے بسی سے مرنے کی بات نہ کرے تو اور کیا کرے۔ اسے حکمرانوں سے جواب طلبی کرنی چاہیے۔
سانحہ مری پر نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں بات کرتے ہوئے ضیغم خان کا کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن عوام کے سنگین مسائل پر سیاست نہ کرے تو کیا وہ لاہور کے تھیٹر اور ٹی وی ڈراموں پر سیاست کرے۔ یہ اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے سلگتے ہوئے مسائل پر گفتگو کرے، جہاں جہاں حکومت کی ناکامی ہے، اسے آئینہ دکھائے۔
اسے حکومت کے سامنے کھڑے ہو کر اس چیز کی جواب طلبی کرنی چاہیے کہ تمہاری بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے درجنوں پاکستانی انتہائی مشکل حالات میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اموات کسی جنگل میں نہیں بلکہ شہر کے بیچوں بیچ ہوئیں جہاں سے پانچ منٹوں کے اندر انھیں شیلٹر میں پہنچایا جا سکتا تھا۔ وہاں سے تو فیملیاں پیدل چل کر واپس اسلام آباد بھی پہنچ سکتی تھیں۔ شہر کی آباد جگہ پر لوگ ٹھٹھر کر مر گئے۔ کیا اس چیز کا حکومت سے حساب نہ لیا جائے؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کے دور حکومت میں ایسی ایسی بد انتظامیاں ہیں جو آپ کو ہر ادارے اور محکمے میں نظر آ رہی ہیں۔ سانحہ مری کی وجہ سے حکمرانوں کی بے حسی پر پی ٹی آئی کے اپنے کارکن بھی افسردہ ہیں۔ اس حکومت کی کوئی پلاننگ نہیں ہے۔ محکمہ موسمیات نے شدید برفباری کے طوفان کا خطرہ بتا دیا تھا لیکن اس کے سدباب کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مری میں فوج بلانے کی نہیں بلکہ وہاں موجود فوج کو اس صورتحال سے پہلے ہی تیار کرنے کی ضرورت تھی۔ جہاں لوگوں کی اموات ہوئی، وہ آرمی اور پاک فضائیہ کی انسٹالیشن سے چند منٹوں کے فاصلے پر ہیں۔ وہاں چل کر پندرہ بیس منٹ میں پہنچا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر ان کیساتھ کوآرڈینیشن پہلے کر لی جاتی تو اس بڑے سانحے سے بچا جا سکتا تھا، حکومت نے انھیں آن بورڈ ہی نہیں لیا۔
اس سانحہ پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ گورننس کے معاملات کو حکومت نے ہی دیکھنا ہوتا ہے۔ اگر صوبائی، وفاقی حکومت اور انتظامیہ نے مری میں سیاحوں کی حفاظت کیلئے کچھ نہیں کیا تو کیا اب اپوزیشن ان پر تنقید بھی نہ کرے۔ یہ لوگ کیسا رویہ اپنا رہے ہیں۔
پروگرام کے دوران وقار ستی کا کہنا تھا کہ کچھ روز قبل الرٹ جاری کیا گیا تھا کہ مری اور اس کے ملحقہ علاقوں میں شدید برفباری ہونے والی ہے۔ اس کے باوجود سیاحوں کی آمد شروع ہو گئی لیکن انھیں کسی نے نہیں روکا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں پھنس گئیں۔ ان میں سے کئی ہیٹر چلانے سے پیدا ہونے والی زہریلی گیس جبکہ بعض ٹھنڈ سے مر گئے۔
مقامی لوگوں کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ چالیس گھنٹوں سے وہاں بجلی اور گیس کا نام ونشان تک نہیں ہے۔ فون چارج نہ ہونے کی وجہ سے ان کا اپنے پیاروں سے رابطہ ختم ہو چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے ادوار میں یہ ہوتا تھا کہ برفباری کا الرٹ جاری ہوتے ہی مشینری کو سڑکوں پر کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ ایک حد سے زیادہ لوگوں کو مری جانے سے ہی روک لیا جاتا تھا۔ ہر طرف ایمرجنسی کی صورتحال نافذ کر دی جاتی تھی لیکن گذشتہ چند روز سے مری کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے۔ سیاح تو دور کی بات مری اور اس کے قرب وجوار میں رہنے والے لوگوں کے پاس خوراک ختم ہو چکی ہے۔ ان کا مکمل رابطہ کٹ چکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی لوگوں نے سب سے پہلے اس سانحے کی انتظامیہ کو اطلاع دینے کی کوشش کی لیکن انہوں نے ماننے سے ہی انکار کر دیا کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ مقامی لوگوں نے اس صورتحال میں اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کو وہاں سے ریسکیو کیا۔ سب نے حسب توفیق جو بھی ان کے بس میں تھا مشکلات میں پھنسے سیاحوں کو فراہم کیا۔ اس میں ادویات، کھانا، پانی، کمبل اور گرم کپڑے شامل تھے۔
وقار ستی نے چونکا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ مقامی انتظامیہ یہاں کے تاجروں کو کرپشن کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ملک بھر میں جو ابلا ہوا انڈا 30 روپے کا ملتا ہے، اس کی مری میں قیمت 300 روپے ہے کیونکہ مقامی انتظامیہ ان سے بھتہ لیتی ہے۔