شوقِِ شہادت کہاں گیا؟ پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کے نام اہم پیغام!

شوقِِ شہادت کہاں گیا؟ پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کے نام اہم پیغام!
گذشتہ روز پی ٹی آئی کے مشہور زمانہ بدتمیز شہباز گِل نے ہماری پرانی ویڈیو ٹوئٹر پر شیئر کی جس میں ہماری جدوجہد کی ساتھی عروج اورنگزیب، حیدر بٹ، رضا گیلانی، محبہ احمد اور زاہد علی میرے دربوکہ کی تھاپ پر نعرے لگا رہے تھے۔ یاد رہے کہ یہ ویڈیو 2019 کے طلبہ یکجہتی مارچ کی موبلائزیشن کے دوران فیض فیسٹیول کی ہے۔ یہ نعرے پاکستان میں لیفٹ کی سیاست کرنے والے کارکنوں نے متعارف کروائے جنہیں بعد میں پی ٹی آئی نے چوری کرنے کی کوشش کی اور انھیں بری طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ جبکہ آج ایک مفرور پاکستانی امریکن سیاست دان پوچھ رہے ہیں کہ ہماری سرفروشی کی تمنا اور شوقِ شہادت کہاں گیا؟

امریکہ میں مقیم 'گِلوں کے منڈے' کو بتلانا مقصود ہے کہ ان نوجوانوں کی سرفروشی کی تمنا اور شوقِ شہادت اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار سیاست دانوں اور ان جیسے سیاسی چیلوں کیلئے بالکل نہیں ہے بلکہ ان کی سرفروشی کی تمنا اور شوقِ شہادت مزدوروں اور محنت کشوں کی جنگ لڑنے کے لئے مخصوص ہے۔



مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2019 کے طلبہ مارچ کی اس ویڈیو پر ففتھیوں کی برگیڈ نے ہم پر کیا کیا الزامات نہیں لگائے۔ ان کے یوٹیوبرز نے ہمیں غداری کے تمغے پہنائے، کسی نے ہمیں ایلیٹ بنا دیا، کسی نے میرے دربوکہ بجانے کا مذاق اڑایا تو کسی نے ہمیں الومیناٹی تک کہہ ڈالا۔ ہم سے طلبہ کے مسئلوں پر بات کرنے کی بجائے انتہائی گھٹیا اور بھونڈے سوالات کئے گئے۔ مگر آج وہی لوگ چاہتے ہیں کہ چونکہ اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف ہو گئی ہے تو وہ لڑائی جو انہیں خود لڑنی چاہئیے وہ ہم لڑیں۔ ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اشرافیہ کی کسی جماعت کی لڑائی نہیں لڑیں گے بلکہ ہماری طلبہ، مزدوروں، کسانوں اور عام لوگوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے کی تاریخ ہے جو آج بھی جاری و ساری ہے۔ (ہمارے سیاسی کام کی تفصیلات میرے اور میرے ساتھیوں کی سوشل میڈیا ٹائم لائن سے با آسانی حاصل کی جا سکتی ہیں)۔

ہمیں یاد ہے کہ جب ہم نے 'باجوے اور فیض سے لیں گے آزادی' کے نعرے لگائے تو قومِ یوتھ کی برگیڈ نے اسی اپنے لئے گالی سمجھا اور اپنے والدین کے دفاع کیلئے کود پڑی۔ آزادی کے نعروں پر ہم سے یہ سوال کرنے والے کہ 'تمہیں کون سی آزادی چاہئیے؟'، اب 'حقیقی آزادی الٹرا پرو میکس' کا منجن روز سنتے ہیں، ایموشنل ہوتے ہیں اور کئی تو اشک بار بھی ہو جاتے ہیں۔

ہم نے قومِ یوتھ کے ان تمام الزامات کو نظرانداز کیا اور طلبہ یونین کی بحالی کے مطالبے پر ڈٹے رہے۔ اس دوران تمام جماعتوں کے لیڈران بشمول ان کے وزیر اعظم عمران خان اور اپوزیشن کے بلاول بھٹو و دیگر نے ٹویٹ کیا کہ طلبہ یونین بحال کی جائے گی مگر اسی باجوہ اور فیض کے دباؤ کی وجہ سے طلبہ یونین بحال کروانا تو درکنار، الٹا ہم پر غداری کے پرچے کروائے گئے، ہمارے ساتھی کامریڈ عمار علی جان، فاروق طارق سمیت کئی ساتھی آج تک ان مقدمات کو بھگت رہے ہیں جبکہ ہمارے ساتھیوں محسن ابدالی اور عالمگیر وزیر کو اٹھا لیا گیا۔

ہمارے برے وقت کے ذمہ دار اور ہم پر جھوٹے الزامات لگانے والوں کا کانفیڈنس لیول اور بے شرمی چیک کریں کہ اب یہ لوگ چاہتے ہیں کہ خود یہ امریکہ بھاگ جائیں اور ہم ان کی لڑائی لڑیں۔ ہمارے سروں پر سینگ نہیں ہیں۔ ہماری اینٹی اسٹیبلشمنٹ پوزیشن کل بھی واضح تھی، آج بھی واضح ہے اور ہمیشہ یہ رہے گی کہ فوج کی سیاست میں مداخلت بند ہونی چاہئیے۔

'گِلوں کے منڈے' کی اس ویڈیو پر جب ندیم افضل چن نے جواب دیا کہ اُس وقت عمران خان صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کے پریشر میں انہیں یہ ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کا کہا تو 'گِلوں کے منڈے' نے جواباً ہم پر الزام لگا دیا کہ ہمیں باجوہ اور اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ تھی، گویا جنہوں نے ہمیں سپورٹ کیا انہوں نے ہی ہم پر غداری کے مقدمے کروا دیے اور ہمارے ساتھیوں کو اغواء کیا۔ ایسی منطق گھڑنے والے 'گلوں کے اس منڈے' کی عقل شاید لائل پور کے نواحی گاؤں میں گھاس چرنے گئی ہوئی ہے۔

امریکی پاسپورٹ کی بنا پر اچھلنے والے 'گِلوں کے منڈے' نے تو یہ بھی کہہ ڈالا کہ ہم پلانٹڈ اور سامراج ایجنٹ تھے۔ امریکہ میں بیٹھ کر محنت کشوں کے بچوں کو سامراجی ایجنٹ اور پلانٹڈ کہتے انہیں شرم بھی نہ آئی حالانکہ ‏پلانٹڈ تو ان جیسے امپورٹڈ لوگ تھے جو امریکی سامراج کی چھتر چھایا میں بڑھے اور فیض اور باجوہ کی مدد سے ہم پر مسلط ہوئے، ورنہ ان جیسے غلیظ انسان کی کیا اوقات تھی کہ اس ملک کے وزیر اعظم کا مشیر بن جائے۔

اس ویڈیو میں موجود ہم سب لوگوں کی پیدائش، تعلیم، روزگار اور سیاست یہیں ہے، مگر انہوں نے اقتدار کے مزے بھی لئے اور مشکل وقت پر بھاگ گئے۔ ان کا جوش شہادت ہم نے دیکھا تھا جب کورٹ روم میں روتے گڑگڑاتے تھے کہ مجھے سانس نہیں آ رہا، مجھے چھوڑ دو! وغیرہ وغیرہ۔۔

پاکستان سے فرار یافتہ 'گِلوں کے منڈے' ہماری سیاست پر سوال کرنے سے پہلے ہمارے ماضی اور موجودہ تاریخ پڑھ لیتے تو بہتر ہوتا۔ ہمارا تعلق محنت کش طبقے سے ہے اور ہماری سیاست کا مقصد محنت کشوں کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ ہم اشرافیہ کی کسی جماعت کے آلہ کار نہ پہلے بنے اور نہ اب بنیں گے۔ تاہم جب ان کے غریب کارکنوں پر برا وقت آیا تو 'گِلوں کا منڈا' تو بھاگ گیا مگر اس ویڈیو میں موجود ہمارے طالب علم ساتھی حیدر بٹ نے بطور وکیل پی ٹی آئی کے بہت سے کارکنوں کے مقدمات معاوضہ لیے بغیر لڑے اور کئی بے گناہوں کو رہا کروایا۔ ملٹری کورٹس کے فیصلے پر جب انصاف لائرز فورم بھی خاموش تھا تو ہمارے انہی ساتھیوں نے اسٹیبلشمنٹ کی دھمکیوں کے باوجود لاہور ہائیکورٹ میں ملٹری کورٹس کے خلاف ایک بہت بڑی کانفرنس منعقد کروائی جس کی خبر ان کے لیڈران تک بھی پہنچی۔

اب 'گِلوں کے اس منڈے' اور ان جیسے امپورٹڈ سیاسی چیلوں کیلئے بری خبر یہ ہے کہ انہی نوجوانوں نے طلبہ سیاست کے بعد عوامی سیاست کا فیصلہ کیا اور محنت کشوں کی نئی جماعت حقوقِ خلق پارٹی بنا لی ہے جو ایک سال قبل الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ بھی ہو چکی ہے۔ اس جماعت کا منشور محنت کشوں کے حقوق کے لئے اور ان کے استحصال کے خلاف لڑنا ہے۔ ہم اپنے محنت کشں اور مزدور طبقے کو جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ آپ جیسے امپورٹڈ سیاست دان مارکیٹ میں آنا بند ہوں اور محنت کشوں کی حکمرانی قائم ہو جو اس ملک کے 90 فیصد ہیں۔

ہماری نظر میں حقیقی آزادی یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار سیاسی اشرافیہ سے جان چھڑا کر عام لوگوں کو ایوانِ اقتدار میں لایا جائے اور یہی وہ سرفروشی کی تمنا اور شوقِ شہادت ہے جو شخصیت پرستی نہیں بلکہ حقیقی انقلابی نظریات سے جڑا ہے۔ کچھ وقت ضرور لگے گا مگر محنت کشوں کی جماعت کی صورت میں ایک متبادل ضرور سامنے آئے گا۔

امید ہے کہ 'گلوں کے منڈے' کو ان کی زبان میں سمجھائی گئی بات سمجھ آ گئی ہوگی۔ انہیں لفظوں کے چناؤ پر بھی غصہ نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ 'گِلوں کے منڈے' کو یہی لفاظی اور اندازِ بیاں پسند ہے۔

حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔