ہدایتکار منصور خان کے پروڈکشن منیجر نے آ کر جب اُنہیں یہ بتایا کہ ڈانس ڈائریکٹر سروج خان فون نہیں اٹھا رہیں تو منصور خان کی پریشانی بڑھنے لگی۔ انہیں یہ فکر ستانے لگی کہ اگر سروج خان نہیں ہوں گی تو وہ اپنی فلم کے گیتوں کی کوریو گرافی کس سے کرائیں گے۔ ایک لمحے کو انہیں لگا کہ اب ان کی زیر تکیمل فلم کہیں مزید لٹک جائے گی۔ بڑی بے چینی کے ساتھ کمرے میں ٹہلنے لگے۔ سروج خان صرف دو دن کی اجازت لے کر عین درمیان میں انہیں چھوڑ گئی تھیں۔ جبھی منصور خان نے گانوں کے بجائے دوسرے مناظر کی عکس بندی کرانا شروع کر دی تھی۔ وہ اس بات سے واقف تھے کہ بالی وڈ فلموں کے لئے گانے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور جب کوریو گرافر نہیں ہوگی تو وہ کیسے اِن گانوں کو شوٹ کریں گے۔ ایسے میں ان کا چہرہ کچھ سوچ کر کھل اٹھا۔ اب ان کی آنکھوں میں بلا کی چمک اورچہرے پر اطمینان کی جھلک تھی۔
ذکر ہو رہا ہے 1991 کے اختتامی مہینوں کا۔ جب ہدایتکار منصور خان اپنی دوسری فلم ’جو جیتا وہی سکندر‘ کی عکس بندی میں مصروف تھے۔ عامر خان ، آئشہ جھلکا، پوجا بندی اور دپیک تجوری جیسی سٹار کاسٹ والی فلم سے انہیں خاصی امید تھی۔ منصور چار سال پہلے ہی ’قیامت سے قیامت تک‘ بنا کر بالی وڈ میں تہلکہ مچا چکے تھے۔ اسی فلم نے جوہی چاؤلہ اور عامر خان کو سپر سٹارز بنا دیا تھا۔ عامر خان ان کے چچا زاد بھائی تھے اور اب ایک بار پھر اُنہوں نے ’جو جیتا وہی سکندر‘ کے لئے عامر خان کو ہی کاسٹ کیا تھا۔ فلم کے گیت مجروح سلطان پوری نے لکھے تھے اور موسیقار جوڑی جتن للت نے دل کو چھو لینے والی موسیقی ترتیب دی تھی۔ اسی اعتبار سے منصور خان چاہتے تھے کہ گیتوں کی کوریو گرافی بھی غیر معمولی ہو۔ اسی بنا پر انہوں نے اُس وقت کی ٹاپ کوریو گرافر سروج خان کو بھاری معاوضے کے عوض فلم کا حصہ بنایا تھا۔ فلم کی عکس بندی کے لئے ریاست تامل ناڈو کے ہل سٹیشن کوڈیکا نال کا انتخاب ہوا تھا۔ جو چاروں طرف پھیلے گھنے اور خوبصورت درختوں کے ساتھ ساتھ فطری اور قدرتی مناظر سے آراستہ تھا۔ ممبئی سے خصوصی طور پر آئیں سروج خان یونٹ کے ساتھ تھیں۔ جنہوں نے باقاعدہ کام شروع نہیں کیا تھا۔ صرف اور صرف اب تک ریہرسلز ہی ہو رہی تھیں۔ لیکن چند دنوں بعد سروج خان یہ کہہ کر چلتی بنیں کہ ایک اور فلم کے گیتوں کی کوریو گرافی کرنی ہے، دو دن کے اندر واپس آ جائیں گی۔ لیکن ہفتہ ہوا سروج خان کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اُن کا فون بھی بند آ رہا تھا اور یہی بری خبر لے کر منصور خان کا پروڈکشن منیجر آیا تھا۔
منصور خان کو خیال آیا اپنی اسسٹنٹ ڈائریکٹر فرح خان کا، جنہیں انہوں نے ایک ڈانسنگ سنٹر میں دیکھا تھا اور ان کی محنت اور کام کا جنون دیکھ کر منصور نے اُنہیں اپنے پروڈکشن ہاؤس میں شامل ہونے کی پیش کش کی تو پراعتماد فرح خان کا کہنا تھا کہ کیوں نہ انہیں منصور خان اپنا اسسٹنٹ بنا لیں۔ جس پر منصور خان نے اُن کی اس بے باکی، برجستگی اور پراعتمادی کا جواب ’ہاں‘ میں دیا اور یوں وہ ’جو جیتا وہی سکندر‘ کے یونٹ سے جڑ چکی تھیں۔ بیشتر اداکاروں کے چناؤ میں وہ پیش پیش رہتیں۔ منصور خان کے لئے وہ کئی اداکاروں کے آڈیشن لیتیں اور جو جس کردار کے لئے انہیں درست لگتا، منصور خان کے مشورے کے بعد اسے کاسٹ کرتی جاتیں۔ یہ فرح خان ہی تھیں جو اداکاروں کو سروج خان کی ڈانٹ اور غصے سے بچانے کے لئے فارغ اوقات میں رقص کی تربیت بھی دے دیتیں۔ اب ایسی نازک صورتحال میں منصور خان کو سروج خان کے متبادل کے طور پر فرح خان کا ہی خیال آیا تھا۔ جو چند لمحے بعد ان کے مقابل کھڑی تھیں۔ فرح خان کو جب یہ بتایا گیا کہ وہ اب ڈائریکشن اسسٹنٹ کے بجائے ’جو جیتا وہی سکندر‘ کے گانوں کی کوریو گرافی کریں گی تو ان کی خوشی کا کوئی عالم نہیں تھا۔ درحقیقت رقص ان کا پہلا جنون اور شوق تھا۔ فرح خان کو پہلا ٹاسک فلم کے گیت ’پہلا نشہ پہلا خمار‘ کا ملا۔ جس کی دھن اور بول سننے کے بعد انہوں نے اس گانے کو عام روایتی گانوں سے ہٹ کر عکس بند کرنے کا ارادہ کیا۔ وہ ساری رات اس گیت کو سنتی رہیں۔ ان کا خیال تھا کہ چونکہ یہ گانا دھیمے سروں اور ہلکی موسیقی سے سجا ہے تو اس کی کوریو گرافی بھی کچھ ایسی ہونی چاہیے۔ عام طور پر بالی وڈ گانوں کے کسی ایک حصے میں ہیرو اور ہیروئن کو بھاگتے دوڑتے جب دکھایا جاتا تو اس میں ’سلو موشن‘ تکینک کا استعمال کیا جاتا لیکن اگلے دن جب فرح خان سیٹ پر آئیں تو انہوں نے منصور خان کو یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ وہ یہ پورا کا پورا گیت سلوموشن میں عکس بند کریں گی۔ ابتدا میں تو منصور خان راضی نہ ہوئے لیکن جب فرح خان نے انہیں یاد دلایا کہ وہ انہیں کوریو گرافرکے لئے چن چکے ہیں اور انہیں وہی کرنے دیں جو اُن کے ذہن میں ہے تو آخر کار منصور خان نے تھوڑی بحث کے بعد ہتھیار ڈال ہی دیے۔
ممکن ہے کہ فرح خان کے دماغ میں 1971 میں آئی فلم ’لاکھوں میں ایک‘ کا محمود اور رادھا سلوجہ پر فلمایا گیت ’جوگی او جوگی‘ بھی ہو، جو مکمل طور پر سلو موشن میں عکس بند کیا گیا تھا۔ بہرحال تین دن کی محنت و مشقت کے بعد آخر کار ’پہلا نشہ پہلا خمار‘ عکس بند ہو گیا۔ جس میں سارے کے سارے کرداروں کو سلوموشن میں رقص کرتے جھومتے ناچتے گاتے دکھایا گیا۔ جب اس گانے کے رشز منصور خان کو دکھائے گئے تو سمجھیں وہ اپنی کرسی سے اچھل پڑے۔ انہیں توقع نہیں تھی کہ اس مدھر اور رسیلے گانے کو فرح خان کچھ ایسے انداز میں عکس بند کریں گی کہ سننے کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنے کے لائق بھی بن جائے گا۔
’جو جیتا وہی سکندر‘ 22 مئی 1992 کو جب سنیما گھروں کی زینت بنی تو کھڑکی توڑ کامیابی اس کا مقدر بنی۔ بہترین فلم کا فلم فیئر ایوارڈ بھی اس کے حصے میں آیا۔ گانے تو ہر ایک کے لبوں پر تھے۔ لیکن اصل مقبولیت ’پہلا نشہ پہلا خمار’ کو ملی۔ جس کے ذریعے فرح خان کو بالی وڈ نے بہترین کوریو گرافر تسلیم کیا۔ بس پھر کیا تھا، فرح خان نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ کامیابی اور مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھتی چلی گئیں۔ آج وہ کوریو گرافر کے ساتھ ساتھ بطور ڈائریکٹر بھی اپنی صلاحتیوں کا اعتراف کرا چکی ہیں۔ فرح خان کو یوں تو سروج خان کا احسان مند اور ممنون ہونا چاہیے تھا کیونکہ ’جو جیتا وہی سکندر‘ سے آؤٹ ہونے پر فرح خان کی جھولی میں یہ فلم آ گری۔ لیکن بدقسمتی سے انہوں نے اس سچائی کو ماننے کے بجائے فلم ’ہیپی نیو ایئر‘ میں ایک کردار کو سروج خان کے طور پر پیش کر کے اُسے مذاق کا نشانہ بنایا جس پر سروج خان نے اپنی زندگی میں ہی خاصی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ جب چھوٹے بڑوں کی عزت نہیں کریں گے تو بالی وڈ تباہی کی جانب ہی جائے گا۔