'راولپنڈی سازش' کے آخری عینی شاہد ظفر اللہ پوشنی اب ہم میں نہیں رہے

'راولپنڈی سازش' کے آخری عینی شاہد ظفر اللہ پوشنی اب ہم میں نہیں رہے
بدھ 6 اکتوبر کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرنے والے ظفر اللہ پوشنی پاکستان کی تاریخ کے ان چند عینی شاہدین میں سے تھے جنہوں نے نہ صرف تاریخِ پاکستان کو قریب سے دیکھا ہے بلکہ پاکستان بننے کے فوراً بعد ملکی تاریخ کے ایک اہم ترین واقعے کے کلیدی کرداروں میں سے ایک تھے۔ 1926 میں امرتسر میں پیدا ہونے والے ظفر اللہ پوشنی اپنی وفات کے وقت 95 برس کے تھے۔

ظفر اللہ پوشنی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے ایک اہم رکن تھے اور ان کے ساتھی فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر جیسے بائیں بازو کے اہم ترین رہنما تھے۔ پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ کو حقیقی چیلنجز محض مذہبی اور بائیں بازو کی جماعتوں سے ہی تھے۔ اس کا توڑ یہ نکالا گیا کہ مذہبی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا لیا گیا۔ مولانا مودودی ریڈیو پاکستان پر پروگرام کر کے قوم کی اصلاح کا پروگرام چلاتے رہے تو مولانا شبیر احمد عثمانی پارلیمان کے اندر قانون سازی میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔

لیکن کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی قسمت اتنی اچھی نہ تھی۔ ان کے لوگوں کو سیاسی طور پر دبانے کے لئے دھونس، لالچ اور جلا وطنیوں کا سہارا لیا گیا۔ ایسے میں 1948 میں پاک بھارت جنگ کے دوران فوج اور عوام میں یہ عقیدہ راسخ ہو گیا کہ پاکستان جنگ تقریباً جیت چکا تھا لیکن چند جرنیلوں نے سرینگر پر قبضہ نہ کرنے دیا جس کی وجہ سے پاکستان پورے کشمیر کو آزاد نہ کروا سکا۔

ایسے میں میجر جنرل اکبر خان جن کی اہلیہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے حلقوں میں اٹھا بیٹھا کرتی تھیں، اس پارٹی کو میجر جنرل اکبر خان کے قریب لائیں جنہوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے برطانوی اور بھارتی دباؤ میں آ کر جنگ کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا۔ اس غلطی کو درست کرنے کے لئے انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مارشل لا کے لئے انہوں نے خفیہ طور پر بائیں بازو کی حمایت مانگی۔ تاریخ اسے ' راولپنڈی سازش کیس' کے طور پر جانتی ہے۔

واقعہ لیکن کچھ یوں ہوا کہ اس منصوبے کے بارے میں وزیر اعظم لیاقت علی خان اور فوج کی اعلیٰ قیادت کو پہلے ہی علم ہو گیا۔ انہوں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے تمام اہم کرداروں کو گرفتار کر لیا اور یوں یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔

قریب دو سال قبل نیا دور سے بات کرتے ہوئے ظرف اللہ پوشنی نے لیکن اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ یہ کوئی سازش تھی ہی نہیں کیونکہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان نے سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد اس کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ حکومت کے خلاف بغاوت کر کے اقتدار میں آنا درست فیصلہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ قانون میں کوئی منصوبہ اس وقت تک سازش نہیں کہلا سکتا جب تک کہ اس پر عمل نہ کیا جائے یا کم از کم اس میں شامل افراد اس پر متفق ہو چکے ہوں کہ وہ سازش کرنے جا رہے ہیں۔ پوشنی نے کہا کہ ہم نے ایسا کرنے سے پہلے ہی اس منصوبے سے خود کو علیحدہ کر لیا۔ اور گرفتاریوں کے بعد عدالت میں بھی یہی مؤقف پیش کیا کہ ہم پہلے ہی اس سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ تاہم، عدالت نے بہت سے ساتھیوں کو جیلوں میں ڈالا۔ ان میں سے ایک اردو زبان کے عظیم شاعر فیض احمد فیض بھی تھے۔



افسوس کہ پاکستان کی تاریخ کے ایک اہم ترین باب کا یہ عینی شاہد اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ تاہم، اپنی کتاب Prison Interlude: The Last Eyewitness Account of the Rawalpindi Conspiracy Case میں وہ روالپنڈی سازش کیس کے حوالے سے اپنی یادداشتیں مجتمع کر گئے ہیں۔