"میرے پاپا کدھر ہیں؟"

(نیا دور کی 'عوام کی آواذ' میں شائع ہونے والی عثمان آفریدی کی تحریر)


"فاطمہ  بیٹی ! یاسر کو بھی اندر لے آؤ اور آپ بھی آجائیں ۔ کافی دیر ہو گئی ہے ۔ اندھیرا ہے کوئی سایہ بیٹھ جائے گا اور ویسے بھی آجکل شہر کے حالات ٹھیک  نہیں ۔ "


فاطمہ اور یاسر شام کو گلی میں کھیل کر گھر  واپس آئے تو پتہ چلا کہ ان کے ابو ابھی تک گھر نہیں پہنچے ۔ ابو نے جاتے ہوئے فاطمہ کے  لیے گڑیا اور یاسر کے لیے بیٹ لانے کا وعدہ کیا تھا ۔آج ابو کو کافی دیر ہوگئی ہے ابھی تک آجانا چاہیے تھا ۔وہ دونوں دروازے پہ ان کا انتظار کر رہے تھے کہ امی نے آواز دی کہ اندر آؤ۔ لیکن انہوں نے امی کی بات ان سنی کر دی ۔ ان کو ابو جی کے آنے کا انتظار ہے ۔ فاطمہ نے تو پورے محلے کے دوستوں کو گڑیا کے بارے میں بتایا ہے اور یاسر بھی بیٹ کے لیے بے تاب ہے ۔ لیکن ایک طرف پورے دن کی تھکاوٹ ہے اور کچھ رات کا اندھیرا تو نیند سے لڑتے لڑتے ادھر ہی ابو کے انتظار میں  سو جاتے ہیں ۔


بیوی بھی پوری رات اس انتظار میں تھی کہ ان کا شوہر کب لوٹ کر آئے گا ۔ دروازہ کھٹکھٹایے گا شاید ان کو کہیں دیر ہوگئی  ہے ۔


پھر اگلےدن صبح بچے امی سے ابو کے بارے میں پوچھتے ہیں تو امی کہتی ہیں کہ وہ رات کو آیا تھا لیکن ان کو ضروری کام تھا تو اس لیے صبح جلدی جانا پڑ گیا ۔


پھر بچے سکول چلے جاتے ہیں۔ شام کو گلی میں کھیل کر اسی طرح دروازے پہ ابو کے انتظار میں  بیٹھ جاتے ہیں ۔ پھر وہ اسی طرح نیند سے ہار جاتے ہیں اور ادھر ہی سو جاتے ہیں ۔ صبح ہوتی ہے تو وہی ابو کے آنے کا سوال کرتے ہیں اور امی کا وہی صبح  جلدی کام سے جانے کا بہانہ ۔۔۔۔۔۔۔ فاطمہ کے دادا جان نے کئی لوگوں سے رابطہ کیا ۔ پولیس اور دوستو کے ساتھ کافی ڈھونڈنےکی کوشش کی لیکن کوئی پتہ نہیں چلا ۔ مسجد کے مولوی صاحب سے بھی ہر نماز کے بعد اپنے بیٹے کی حفاظت سے واپسی کے لئے دعائیں کرواتے ہیں  ۔


اس کی بہن ہر جمعرات کو  محلے کے بچوں کو اکٹھا کرکے قرآن مجید کا ختم رکھواتی ہے ۔


بھائی کو جدھر بھی نامعلوم شخص کی لاش کی خبر ملتی ہے تو فوراً  وہ ادھر چلا جاتا ہے ۔


 اماں جی کو استانی باجی نے وظیفہ بتایا ہے بس وہ خاموشی سے  وہی کام کرتی ہیں ۔


کئی سال ہوگئے لیکن فاطمہ کے ابو گھر واپس نہیں لوٹے ۔ گڑیا لانے کا وعدہ کرکے ابو کی گڑیا فاطمہ اب بڑی ہوگئی ہے ۔ ابو کے انتظار میں ابھی بھی وہ گھر کے دروازے پر بیٹھی رہتی ہے ۔ اب اس کو نیند نہیں آتی ۔ اب وہ پوری پوری رات ابو کے انتظار میں میں جاگتی ہے ۔ اب امی کے پاس بھی کوئی بہانہ نہیں۔


اب وہ سب سے پوچھتی ہے کہ میرے ابو کدھر ہیں،  میرے ابو کدھر گئے،؟  میرے ابو کی تو کوئی غلطی نہیں تھی۔ انہوں  نے تو کبھی کسی کے ساتھ برا نہیں کیا تھا ۔ اس نے ایسا کونسا گناہ کیا تھا جس کی سزا اس کو مل گئ ہے ؟۔


اب فاطمہ نے سب یتیم بچوں کو اکٹھا کیا ہے ۔ سب سے کہتی ہے ہمارے والدین کیوں لاپتہ ہیں؟ وہ کون سی جنگ میں حصہ لینے گئے تھے جن کی ابھی تک لاشیں تک نہیں ملیں؟ ہمارے نوجوانوں کو شہید کیا گیا ۔ مسجد ،مندر ،امام بارگاہ، درگاہ اور گرجا کی توقیر کو پامال کیا گیا ۔ہمارے بچے یتیم ہو گئے ۔فوج ،پولیس کے سپاہیوں سے لے کر بٹ خشت میں کام آنے والے  غریب مزدوروں تک کو شہید کیا گیا اور سینکڑوں افراد ابھی تک لاپتہ ہیں ۔ہزاروں نوجوان تاریک راہوں میں مارے گئے ۔


فاطمہ کے سوالات بہت زیادہ ہیں اور  سخت بھی  لیکن اس معاشرے کے پاس جواب کوئی نہیں ۔


فاطمہ کی دادی نے ایک لمبی تسبیح ہاتھ میں لی ہوتی ہے ۔ وہ پہلے اس پہ اپنے بیٹے کی خیریت سے واپسی کے لئے وظیفہ کرتی تھیں ۔ لیکن اب وہ بےدھیانی میں ذکر کے  بجائے اپنے بیٹے  کے  نام کی ورد کرتی ہیں۔ عبداللہ،عبداللہ، عبداللہ، عبداللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مصنف آزاد جموں و کشمیر میڈیکل کالج مظفرآباد سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں