عمران خان کے اقتدار کا سورج بالاخر غروب، تحریک عدم اعتماد کامیاب

عمران خان کے اقتدار کا سورج بالاخر غروب، تحریک عدم اعتماد کامیاب
عمران خان کے ساڑھے تین سالہ اقتدار کا سورج بالاخر غروب ہو گیا ہے۔ ان کیخلاف متحدہ اپوزیشن کی عدم اعتماد تحریک کامیاب ہو گئی ہے۔ ان کیخلاف 174 اراکین پارلیمنٹ نے ووٹ ڈالے۔ شہباز شریف نے اس کامیابی کو نئی صبح کا آغاز قرار دیا۔

سپریم کورٹ کی ہدایت پر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کیلئے اجلاس ہفتہ کی صبح 10 بجے شروع ہوا تھا تاہم رات ساڑھے 11 بجے تک ووٹنگ نہیں کرائی جا سکی تھی۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر اپوزیشن رہنما حکومت سے فوری طور پر ووٹنگ کا مطالبہ کرتے رہے۔

اسد قیصر کی جانب سے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کی اور وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کا عمل شروع کرایا۔

سردار ایاز صادق کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا اعلان ہوتے ہی حکومتی ممبران نے اپنی نشستیں چھوڑ دیں اور وہاں سے چلے گئے۔ جبکہ عمران خان نے وزیرِاعظم ہاؤس چھوڑ دیا تھا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے متفقہ طور پر ڈپٹی سپیکر قام سوری کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک اعتماد کو مسترد کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ حکومت کسی بھی رکنِ قومی اسمبلی کو عدم اعتماد کی تحریک میں ووٹ ڈالنے سے نہ روکے اور نہ ہی کسی قسم کی مداخلت کرے۔

سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا استعفیٰ

اسد قیصر نے وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ خواہ میرے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد لے آئی جائے یا سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا جائے، میں کبھی وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری نہیں کرائوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے جو بھی سزا ملے، اسے بھگتنے کیلئے تیار ہوں لیکن کسی صورت عمران خان کیساتھ بے وفائی نہیں کر سکتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسد قیصر اور قاسم سوری نے اپنے عہدوں سے استعفے دینے کا فیصلہ بنی گالہ میں وزیراعظم عمران خان کیساتھ ملاقات میں کیا۔ یہ فیصلہ توہین عدالت کی کارروائی سے بچنے کیلئے کیا گیا۔

آج ایوان آئینی طریقے سے سلیکٹڈ وزیراعظم کو شکست دینے جارہا ہے: شہباز شریف

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا قومی اسمبلی سے خطاب میں کہنا تھا کہ آج پارلیمان نئی تاریخ رقم کرنے جا رہا ہے۔ انہوں نے اسپیکر کو مخاطب ہو کر کہا کہ ماضی میں ہوا وہ ہوا، آج صحیح معنوں میں اسپیکر کا کردار ادا کرکے تاریخ کے سنہرے حروف میں نام لکھوا لیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ پرسوں پاکستان کی تاریخ کا ایک تابناک دن تھا ، جب عدالت نے آپ کے، عمران خان اور ڈپٹی اسپیکر کے غیر آئینی اقدام کو کالعدم قرار دیا اور نظریہ ضرورت کا سہارا نہیں لیا بلکہ نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا اور پاکستان کا مستقبل تابناک بنادیا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ہم سب اور پوری قوم اللہ تعالیٰ کے ہاں سربسجود ہے، اس کے لیے قوم پوری متحدہ اپوزیشن کی قیادت سلام پیش کرتی ہے جن کی جدوجہد کے نتیجے میں آج قوم کو یہ دن دیکھنا نصیب ہوا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ گزارش کرتا ہوں سپریم کورٹ کا جو حکم ہے اس کے تابع آج ہاؤس کی کارروائی چلائیں، آج پارلیمانی نئی تاریخ رقم کرنے جارہا ہے، آئینی و قانونی طریقے سے سلیکٹڈ وزیراعظم کو شکست فاش دینے جارہا ہے، یہ کہنا چاہتا ہوں جو ماضی میں ہوا وہ ہوا، آج آئین و قانون و عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے لیے کھڑے ہوجائیں، آج صحیح معنوں میں اسپیکر کا کردار ادا کرکے تاریخ کے سنہرے حروف میں نام لکھوا لیں۔ اس موقع پر اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی پڑھ کر سنایا۔

ایک شخص کو بچانے کیلئے سپیکر توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں: بلاول

قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ ایک شخص سپیکر اور چئیرمین کی قربانی دے کر دو تین دن اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتا ہے۔ سپیکر توہین عدالت کررہے ہیں، اس پر انہیں نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ سپیکر کو اس پر نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ عدالت نے سپیکر کی رولنگ کو مسترد کر دیا۔ عدالتی حکم کے تحت آج عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانی ہے۔

انہوں نے شاہ محمود کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے وزیراعظم کو کہا تھا کہ ان سے بچیں ورنہ یہ پھنسادیں گے اور انہوں نے ہی آپ کو پھنسایا ہے۔ اگر عدالتی حکم کے مطابق ووٹنگ نہیں ہوئی تو اپوزیشن ارکان اسمبلی سے نہیں جائیں گے، عدالت کا حکم ہے کہ آج آپ کو ووٹنگ کرانی ہے۔ سپیکر صاحب آپ اس جرم میں شامل ہیں۔ عمران خان اپنی اکثریت کھو چکے ہیں، اکثریت اپوزیشن کی طرف ہے، اسپیکر نہ صرف عدالتی حکم کی خلاف ورزی کررہے ہیں بلکہ آئین شکنی بھی کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپیکر قومی اسمبلی ووٹنگ کا عمل شروع کروائیں، ورنہ آپ کیخلاف سپریم کورٹ جائیں گے: زرداری

سابق صدر آصف علی زرداری نے سپیکر قومی اسمبلی کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آج ووٹنگ کا دن ہے۔ وقت ضائع نہ کریں اور ووٹنگ کا عمل شروع کریں۔ ووٹنگ کرائیں اور آگے بڑھیں۔ میں کسی سے پرسنل نہیں ہونا چاہتا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں تعلقات خراب نہیں کئے جاتے۔ نہیں چاہتا کہ ہم سپیکر کیخلاف بھی سپریم کورٹ جائیں۔

آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ یہ لوگ کون سے ملکی ذخائر کی بات کر رہے ہیں، یہ تمام میں چھوڑ کر گیا تھا۔ سیاسی یونیورسٹی صرف پیپلز پارٹی ہے پاس ہے، ان کے ہاں ہمارے سٹوڈنٹس بیٹھے ہیں جو ایک دن واپس آ جائیں گے۔

آج شاید ایوان میں میرا آخری دن ہے: شاہ محمود قریشی

قومی اسمبلی کے اجلاس میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی درپردہ تبدیلی کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان چھوٹا سہی لیکن ایک خود مختار ملک ہے۔ ہم آج ہیں شاید کل نہ ہوں، لیکن پاکستان ہمیشہ رہے گا۔ آج شاید ایوان میں میرا آخری دن ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آپ غلامی قبول کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم اسے قبول نہیں کرینگے۔ آج ملک دوراہے پر کھڑا ہے۔ قوم کو فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے سر اٹھا کر جینا ہے یا سر جھکا کر۔ آئین کے تحفظ کی قسم اٹھانے کی والی قوتیں نہیں دیکھ رہیں کہ وفاداریاں تبدیل کی جا رہی ہیں

ان کا کہنا تھا کہ وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو ٹکٹوں کے خواب دکھائے گئے۔ ہارس ٹریڈنگ کے ثبوت ہم نے الیکشن کمیشن میں پیش کئے۔ ووٹ خریدے گئے، ہم نے اس پر احتجاج کیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ آج پھر کہتا ہوں کہ ہمیں ملنے والا ڈاکیومنٹ مصدقہ ہے۔ ڈاکیومنٹ واشنگٹن میں تعینات 22ویں گریڈ کے ایک افسر نے بھیجا۔ اپوزیشن کو اب بھی تحفظات ہیں تو واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر کو طلب کرکے ان کیمرا اجلاس بلا لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کہا کہ ہم امن میں کردار ادا کریں گے، انتشار میں نہیں۔ رجیم تبدیلی کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ بلاول نے کہا کہ یہ دستاویزات فرضی ہے، مریم نے کہا کہ اسے دفتر خارجہ سے میں تیار کیا گیا۔ جو دستاویز ہے وہ اصل ہے۔ اس معاملے پر ان کیمرا اجلاس بلا لیتے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا تھا کہ اگر کوئی مراسلہ ہے تو اسے پارلیمنٹ کے سامنے رکھا جائے۔