عدالت عالیہ اسلام آباد میں متنازع ٹوئٹس کی وجہ سے ایف آئی اے کے نوٹسز کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ادارے ٹوئٹس سے بہت اوپر ہیں، کسی کہ کہنے یا ٹوئٹس کرنے پر بغاوت نہیں ہوتی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ مریم ملک کو ہراساں کرنے سے روکنے کی درخواست پر کیس کی سماعت ہوئی، جس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے نے مریم ملک کی متنازع ٹوئٹس عدالت کے سامنے پیش کردیں۔ عدالت نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ کیا یہ آپ کی ٹوئٹ ہے؟ جس پر مریم ملک نے کہا کہ مجھے معلوم ہی نہیں کہ ایف آئی اے کو میری کس ٹوئٹ پر اعتراض ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ آپ کو پتا ہے آئین کیا ہے؟ ریاست آئین پر چلتی ہے، اگر کوئی چیز پارلیمنٹ میں ہو تو آپ کیسے اعتراض کر سکتے ہیں؟ آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ جو کچھ پارلیمنٹ میں ہوا وہ آئین کے مطابق ہوا ہے۔ یہاں پر آئین کی تو کسی کو پروا ہی نہیں ہے۔
عدالت میں سماعت کے دوران ایف آئی اے حکام نے کہا کہ مریم ملک نے اپنی ٹوئٹس میں پورے ملک کو کہا کہ ریاست کے خلاف کھڑے ہو جائیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ادارے اصل میں عوام کی وجہ سے ہیں۔ عوام میں کچھ لوگ نا سمجھی سے یہ کر دیتے ہیں۔ ریاست کے اور بہت سے کام ہیں۔ یہ ادارے ان ٹوئٹس سے بہت اوپر ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کی ٹوئٹس یا کہنے پر بغاوت نہیں ہوتی۔ وہ اس ملک کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ آپ کو پاک آرمی پر فخر ہونا چاہیے۔ ان کے کچھ کہنے سے فوج میں بغاوت کا خطرہ کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ ناسمجھ ہے جسے آئین کا نہیں پتا، آپ اسے جرم بنا دیں گے اور ایف آئی اے اس کے پیچھے پڑ جائے گا۔
عدالت نے کہا کہ ریاستی ادارے اپنے عمل و کردار سے اپنا عزت و وقار بناتے ہیں، ٹوئٹس سے اداروں کو کیا فرق پڑتا ہے؟۔ سوشل میڈیا پر جتنا جھوٹ ہے، کیا آپ سب کے پیچھے پڑ جائیں گے؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر میرے بارے میں کچھ لکھنے سے میں خوفزدہ ہوگیا تو یہ میرے حلف کی خلاف ورزی ہوگی۔ ایک ناسمجھی کی ٹویٹ ہے اس پر جرم کیا بنتا ہے؟۔
عدالت نے مریم ملک کو ایف آئی اے کو جواب دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس جائیں تو آئین پڑھ کر جائیں اور اپنے مفروضے درست کریں۔ عدالت ہمیشہ آئین کا تحفظ کرے گی۔عدالت نے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ مریم ملک کو ہراساں کرنے سے روکنے کے حکم میں توسیع کرتے ہوئے آئندہ سماعت 24 جون تک ملتوی کردی۔