حالیہ مہینوں میں، ہمالیہ میں خطرناک برفانی تودے گرنے کی متعدد رپورٹیں اخباروں کی سرخیاں بنیں۔ برف، منجمد پانی اور چٹانیں اچانک گرتی ہیں اور دامنِ کوہ سے گزرتے ہوئے اپنے راستے میں آنے والےانسانوں، جانوروں اور انفراسٹرکچر ( سڑکوں، پلوں اور نکاسئی آب کے نظام) کو دفن کر دیتی ہیں۔
گزشتہ دو سالوں میں صرف بھارتی ہمالیہ میں ہی کم از کم 120 افراد برفانی تودے گرنے سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ اپریل 2023 میں، ماؤنٹ ایورسٹ پر برفانی تودہ گرنے سے تین کوہ پیما ایک برف کے تودے کی گہری دراڑ میں دب گئےتھے۔
ہمالیہ دونوں قطبوں کے بعد زمین پر برف اور منجمد پانی کا تیسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ یہ خطہ بھی باقی دنیا کے مقابلے میں تیزی سے گرم ہو رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سوالات اُٹھ رہے ہیں کیونکہ سطح مرتفع کے اوپر پھیلی ہوئی برف پیچھے ہٹ رہی ہے اور گلیشیئرز پِگھل رہے ہیں اور اِس کے نتیجے میں 2,500 کلومیٹر کے ہمالیائی رینج میں برفانی تودوں کا تعدد اور تباہی بڑھ سکتی ہے۔
کیا ہمالیہ میں برفانی تودے زیادہ ہوتے جا رہے ہیں؟
پاکستان میں قائم ماؤنٹین اینڈ گلیشیئر پروٹیکشن آرگنائزیشن اور سول سوسائٹی کولیشن فار کلائمیٹ چینج کی چیف ایگزیکٹو عائشہ خان کہتی ہیں کہ برفانی تودے کی سرگرمیوں میں اضافہ ہمالیہ میں موسمیاتی تبدیلی کا “متوقع نتیجہ” ہے۔
2018 میں، سوئٹزرلینڈ کی یونیورسٹی آف جنیوا کے سائنس دانوں نے تحقیق شائع کی جس نے درختوں کے تنوں میں سال بسال پڑنے والا حلقوں سے جمع ہونے والے اشاروں کا استعمال کرتے ہوئے ہندوستانی ہمالیائی ریاست ہماچل پردیش میں گزشتہ 150 سالوں کےدوران ہونے والے واقعات اور شہادتوں کی روشنی میں برفانی تودوں کا بصری نقشہ تیار کیا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ پچھلے 100 سالوں کے مقابلے میں پچھلے 50 سالوں میں برفانی تودے بہت زیادہ آئے ہیں، اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مغربی ہندوستانی ہمالیہ میں برفانی تودے گرنے کی تعداد 1970 کی دہائی سے بڑھ رہی ہے۔
اس سے پہلے، انہوں نے دریافت کیا کہ اس خطے میں برفانی تودے بہت کم تھے، جس میں “1940 اور 1960 کی دہائی کے درمیان عملی طور پر کوئی سرگرمی نہیں ہوئی”۔ اس کے برعکس 1970 اور 1990 کی دہائیوں میں انہوں نے “بہت زیادہ سرگرمی” کو محسوس کیا۔
یونیورسٹی آف جنیوا کے انسٹی ٹیوٹ فار انوائرمنٹل سائنسز کے ایک سینئر لیکچرر اورمطالعہ کے مرکزی مصنف، جوآن انتونیو بیلیسٹروس-کینواس کہتے ہیں کہ “ہمارے مطالعے میں برفانی تودے گرنے کی تعداد میں حالیہ اضافہ دکھایا گیا ہے، جو موسم سرما کے آخر اور موسم بہار کے شروع میں درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ ملتا ہے۔”
گیلی برف مزید برفانی تودے بنانے کا سبب بنتی ہے
سائنس دانوں نے ثابت کیا ہے کہ ہندو کش ہمالیہ میں درجہ حرارت اور بارش کے انداز میں پچھلے100 سالوں میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ خان نے نشاندہی کی کہ اس کی کھڑی پہاڑی ڈھلوانوں کے ساتھ، ہمالیہ کا علاقہ قدرتی طور پر برفانی تودوں کے خطرات سے گِھرا ہوا ہے۔اور اُنہوں نے مزید کہا کہ گرم تر درجہ حرارت سنو پیک ( ایک کے اوپر ایک برف کی جم جانے والی پرتیں جو ہمالیہ کی اونچائی میں چٹانوں کے زیادہ تر حصّے کو ڈھانپتی ہیں) کی ساخت کو تبدیل کر رہا ہے اور ڈھلوانوں کو غیر مستحکم کررہا ہے۔
گرم درجہ حرارت کا مطلب ہے کہ ماضی کے مقابلے میں بارش، برف کی بجائے، زیادہ اور بار بار گر رہی ہے ۔ ہندوستان کے نیشنل سینٹر فار پولر اینڈ اوشین ریسرچ کے ایک گلیشیو ہائیڈروولوجسٹ سورو لاہا کہتے ہیں، ’’اب زیادہ تر آسمان سے زمین پر پانی کا کششِ ثقل کی وجہ سے گِرنا بارش کی صورت میں ہوتا ہے، جس سے نسبتاً نچلے علاقوں پر برف باری کم ہوتی ہے۔‘‘ لاہا کا کہنا ہے کہ آسمان سے پانی کا یہ گرنا چاہے نئی برف کی صورت میں ہو یا بارش کی صورت میں، یہ برفانی تودے کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔
برف پر گرنے والی بارش گیلے برفانی تودے (گیلے برف کے تودے سنو پیک کی قوت میں کمی کے سبب ہوتے ہیں جسکی عام وجوہات بارش، زیادہ دیر تک سورج کی روشنی کے زیرِاثر رہنا یا گرم درجہ حرارت ہوتا ہے) کا ایک عام محرک ہے۔ جیسے جیسے پانی برف کے پیک سے گزرتا ہے، یہ اس کی ساخت کو کمزور کر سکتا ہے جس کی وجہ سے برف پگھل جاتی ہے۔برف کے دانوں کی شکل اور ساخت تبدیل ہو جاتی ہے اور برف کے دانوں کو ایک ساتھ رکھنے والے رگڑ کو کم کر سکتی ہے۔ بارش کا پانی برف کے پیک کے بعض علاقوں میں وزن کی تقسیم کو بھی جمع اور تبدیل کر سکتا ہے، جس سے نئے دباؤ پیدا ہوتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں برف کا احاطہ کم ہو سکتا ہے اور اس وجہ سے برفانی تودے گرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
لاہا کا کہنا ہے کہ ہمالیہ کی کھڑی ڈھلوانوں پر، “برفانی تودوں کا نیچے گرنےکے لئے خشک برف کے ٹکڑوں کا گیلے برف کے پیک میں تبدیل ہونا برف کے تودے کے بہاؤ کے لئے فیصلہ کن ہے۔”
کیا ہمالیہ کے برفانی تودے مزید خطرناک ہوتے جا رہے ہیں؟
2021 کے ایک مقالے میں، اٹلی، سوئٹزرلینڈ اور ریاستہائے متحدہ کے ماہرین نے لکھا ہے کہ “ایک گیلی اور گرم برفانی آب و ہوا کے ساتھ، برفانی تودوں میں دبنےکے نتائج زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں”۔
مقالے میں کہا گیا ہے کہ برفانی تودے گرم آب و ہوا میں زیادہ تکلیف دہ چوٹوں کا سبب بن سکتے ہیں، کیونکہ برف کی پتلی تہہ نیچے کی چٹان سے کم تحفظ فراہم کرتی ہے، اور یہ کہ گیلی اور گھنی برف میں دبے ہوئے لوگوں کے دم گھٹنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ “برفانی تودے سے ہونے والی موت کی وجوہات کے طور پر دم گھٹنے اورجذباتی صدمے میں اضافہ ہو سکتا ہے۔”
اسی مقالہ میں کہا گیا ہے کہ یورپی الپس (یورپ میں موجود پہاڑوں کی رینج) کے برعکس، ہمالیہ میں صرف کچھ ہی حفاظتی ڈھانچے ہیں جیسے برف کی باڑیں، رکاوٹیں اور سنو شیڈز جو کہ انفرااسٹرکچر پر برفانی تودے کے اثرات کو کم کرتے ہیں لہذا اِس وجہ سےمقامی آبادی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
“یہ حقیقت اس بات کو پیچیدہ کرتی ہے کہ زیادہ تر ہمالیائی ممالک میں، پہاڑی علاقوں میں آبادی دوسرے خطوں کے مقابلے میں اوسطاً غریب ہے۔ اس معاشی پسماندگی کا اکثر مطلب ہوتا ہے کہ پہاڑی برادریوں کو حکومتی فیصلوں میں نظر انداز کیا جاتا ہے جس میں پالیسی ، انفراسٹرکچر کی منصوبہ بندی ، یا آفات سے نمٹنے کے حوالےسے اِن کی رائے کو شامل کرنے کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں۔”
جنیوا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے جوآن انتونیو بیلیسٹروس-کینواس کے مطابق، ہمالیہ میں برفانی تودے زیادہ خطرناک ہوتے جا رہے ہیں، کیونکہ گرمی کی وجہ سے پرما فراسٹ (زمین کی زیریں سطح جو مستقل طور پر منجمد رہے جیسے کہ قطبین کے علاقے میں) کی تنزلی ہوتی ہے۔ انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ کے ایوالانش ان ہائی ماؤنٹین ایشیا ڈیٹا بیس سے پتہ چلتا ہے کہ خاص طور پر گزشتہ 20 سالوں میں جان لیوا برفانی تودے زیادہ عام ہو گئے ہیں۔
ہمالیہ میں برفانی تودے بھی ایک اور بڑھتے ہوئے خطرے کا ایک بڑا محرک ہیں: برفانی جھیل کے پھٹنے سے آنے والے سیلاب یعنی گلوفس (GLOFs)۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب گلیشیئر کے آگے کی طرف نکلے ہوئے حصّے پر جمع ہونے والا پگھلا ہوا پانی اسے روکے ہوئے ڈیم کو توڑ دیتا ہے۔یہ زلزلہ یا برفانی تودے جیسے محرک کی بدولت ہوتا ہے۔ 1930 سے کوہ ہندوکش ہمالیہ میں رونما ہونے والے 30 گلوفس کا تجزیہ جو برطانیہ میں یونیورسٹی آف ایسٹ لندن کے سائنسدانوں نے کیا، اس سے معلوم ہوا کہ 23 فیصد برفانی تودے سے شروع ہوئے۔
کم برف، زیادہ ہوا اور پیچھے ہٹتے ہوئے گلیشیئرز کا مطلب مزید برفانی تودے ہو سکتے ہیں برطانیہ کی ابرڈین یونیورسٹی میں سیاروں کے سائنس کے پروفیسر جیویئر مارٹن ٹورس بتاتے ہیں کہ جب ہمالیہ میں سنو پیک کی شکل میں ہمالیہ میں برف جمع ہوتی ہے تو اس سے ایک قدرتی ‘گوند’ بنتا ہے جو برفانی تودے میں تازہ برف کو پہاڑی ڈھلوانوں سے پھسلنے سے روکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خطے میں برف میں کمی نے اس ’گوند‘ کو کم کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں برفانی تودے گرنے کی تعدد میں مجموعی طور پر اضافہ ہوا ہے۔
مارٹن ٹورس نے مزید کہا کہ ہمالیہ میں گلیشیئرز کا پگھلنا اور پیچھے ہٹنا، جو خطے کے گرم درجہ حرارت کی وجہ سے ہوتا ہے، برفانی تودے کا باعث بن سکتا ہے۔ مارٹن ٹورس کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے گلیشیئر پگھلتا ہے، پانی اس کی بنیاد میں جمع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں برف پھسل سکتی ہے جس سے برفانی تودے کے پھسلنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی بھی ہمالیہ میں ہوا کو تبدیل کر رہی ہے، جو برفانی تودے کے خطرے کا ایک اور عنصر ہے۔ مارٹن ٹورس نے وضاحت کی ہےکہ “بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے خطے میں ہوا کی رفتار میں اضافہ کیا ہے، جس سے برف اور بھی زیادہ متحرک ہو کر اپنے وزن کو مزید بڑھانے کے قابل ہو جاتی ہے اور برفانی تودے میں تیزی سے حرکت کرنے کے لئےتیار ہوجاتی ہے۔”
مغربی ہمالیہ کو خاص طور پر برفانی تودے سے کیوں خطرہ ہے؟
عائشہ خان کے مطابق، جب کہ ہمالیہ کی بلندی پر برف کے پھیلاؤ کا مطلب ہے کہ پہاڑی سلسلے میں برفانی تودے گرنے کا خطرہ ہے، “مغربی ہمالیائی پٹی کے علاقے، بشمول ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ [بھارت کی ریاستیں]کو زیادہ خطرہ ہے۔”
مغربی ہمالیہ (شمال مغربی ہندوستان اور شمالی پاکستان) میں 1,100 مربع کلومیٹر سے زیادہ برف کے احاطے کو ہندوستانی حکومت کے تحقیقی مرکز سنو اینڈ ایوالانچ اسٹڈی اسٹیبلشمنٹ نے ‘برفانی تودوں کے مقامات’ کے طور پر درجہ بند کیا ہے۔اور ہر سال اِس خطے میں برفانی تودے گرنے سے اوسطاً 49 افراد ہلاک ہوتے ہیں۔
جنیوا یونیورسٹی کے مطالعے جس نے ہماچل پردیش میں گزشتہ 150 سالوں میں برفانی تودوں کا بصری نقشہ تیار کرنے کے لئے درختوں کے تنوں میں سال بسال پڑنے والا حلقوں سے جمع ہونے والے اشاروں کا استعمال کیا تھا اس نتیجے پر پہنچا کہ موسم سرما اور موسم بہار کے شروع میں ہوا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے مغربی ہندوستانی ہمالیہ میں برف کے گیلے ہونے میں اضافہ کیاہے۔ جس کے نتیجے میں مزید گیلے برفانی تودے گرے ہیں۔ پچھلے 25 سالوں میں، شمال مغربی ہمالیہ میں زیادہ سے زیادہ اور اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔
ہمالیہ میں برفانی تودوں کے گرنے کے خطرات کو کم کرنے کے لئے کیا کِیا جا سکتاہے؟
انڈیا کے نیشنل سینٹر فار پولر اینڈ اوشین ریسرچ سے سورو لاہا کا کہنا ہے کہ ہمالیہ میں برفانی تودوں کے زیرِ اثر آنے والےممکنہ مقامات کی نشاندہی کرنا اور انفراسٹرکچر کو ترقی دینے سےپہلے خطرات کا اندازہ لگانا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گلیشیئرز کے قریب منصوبوں کےلئے کی جانے والی ماحولیاتی اثرات کی تشخیص کی روشنی میں اِن منصوبوں کے آفات کو کم کرنے کےاقدامات کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔
عمومی طور پر، ہمالیہ میں برفانی تودوں کو سست اور کنٹرول کرنے کے لئے زیادہ وسیع پیمانے پر کئے جانے والے اقدامات درج ذیل ہیں۔:
⚪ کیچ ڈیمز، جو برفانی تودوں کو کم کرتے ہیں۔
⚪ ڈائیورژن ڈیم، جو برفانی تودوں کو وہاں سے ہٹاتے ہیں جہاں سے وہ جان و مال کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔
⚪ مٹی کے ٹیلے، جو نسبتاً سیدھی ڈھلوانوں پر برفانی تودوں کو کم کرنے کے لئے رگڑ پیدا کرتے ہیں۔
⚪ درخت لگانا، جو برفانی تودوں کو سست کر سکتے ہیں اور ان کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔
اس آرٹیکل میں نتالی ٹیلر کی طرف سے اضافی معلومات شامل کی گئی ہیں۔
ڈائیلاگ ارتھ ایک کثیرالزبان پلیٹ فارم ہے جو ہمالیہ کے آبی بہاؤ اور وہاں سے نکلنے والے دریاؤں کے طاس کے بارے میں معلومات اور گفتگو کو فروغ دینے کے لئے وقف ہے.